آیت 11
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کر دیا کرو، اللہ تمہیں کشادگی دے گا اور جب تم سے کہا جائے: اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے اور وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو اللہ بلند فرمائے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آداب مجلس سے واقف نہ تھے اور مجلس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نئے آنے والوں کو جگہ نہیں دیتے تھے۔ اس طرح مجلس رسول میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو نہ آداب محفل کا خیال ہوتا تھا کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ دیں نہ بعد میں آنے والوں میں کوئی شائستگی تھی بلکہ وہ لوگوں کو روندتے ہوئے محفل میں گھس جاتے تھے۔ اس پر آداب محفل پر مشتمل یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر گنجائش ہے تو آنے والوں کے لیے کشادگی پیدا کرو ورنہ اٹھ جایا کرو۔

۲۔ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا: اگر مجلس میں آنے والوں کے لیے جگہ کی گنجائش نہیں ہے تو پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگ اٹھ جائیں تاکہ تم سے علم میں افضل لوگ بیٹھ سکیں۔

۳۔ یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ: اس آیت کی ایک تفسیر یہ کی گئی ہے: تم میں ایمان لانے والوں میں سے جنہیں علم دیا گیا ان کا درجہ بلند ہے ان مومنوں کی بہ نسبت جنہیں علم نہیں دیا گیا ہے۔ دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے: تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں انہیں درجہ حاصل ہے اور جنہیں علم دیا گیا ہے ان کے لیے کئی درجات حاصل ہیں۔ اس تفسیر کے مطابق عبارت اس طرح ہو گی: یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ (درجۃ) وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ۔

بہرحال یہ بات مسلم ہے کہ علم کے بغیر ایمان والوں پر علم کے ساتھ ایمان والوں کو درجہ حاصل ہے:

قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۹)

کہدیجیے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟

نبی کی صحبت میں بیٹھنے والوں کے ذکر کے درمیان علم والوں کی فضیلت بیان کرنے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ علم اور صحبت میں کیا امتیاز ہے۔ درجہ، علم سے بلند ہوتا ہے صرف ہم نشینی سے نہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم نشینی کا درجہ ضرور ہے لیکن ان ہم نشینیوں میں علم والوں کا درجہ بلند ہے۔ حدیث نبوی ہے:

فضل العالم علی الشھید درجۃ و فضل الشھید علی العابد درجۃ و فضل النبی علی العالم درجۃ و فضل القرآن علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ و فضل العالم علی سائر الناس کفضلی علی ادناھم۔ ( مجمع البیان ذیل آیۃ)

عالم کو شہید پر ایک درجہ زیادہ فضیلت دی گئی اور شہید کو عابد پر ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے اور نبی کو عالم پر فضیلت دی گئی ہے اور قرآن کو باقی کلام پر وہی دی گئی ہے جیسے اللہ کی اپنی مخلوق پر فضیلت ہے اور عالم کو باقی لوگوں پر وہی فضیلت دی گئی جو مجھے باقی لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے۔


آیت 11