لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ ۘ سَنَکۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَ قَتۡلَہُمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ نَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ﴿۱۸۱﴾

۱۸۱۔ بتحقیق اللہ نے ان لوگوں کی سن لی ہے جو کہتے ہیں: بے شک اللہ محتاج اور ہم بے نیاز ہیں، ان کی یہ بات اور ان کا انبیاء کو ناحق قتل کرنا بھی ہم ثبت کریں گے اور (روز قیامت) ہم ان سے کہیں گے: لو اب جلانے والے عذاب کا ذائقہ چکھو ۔

ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿۱۸۲﴾ۚ

۱۸۲۔ یہ خود تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے اور بے شک اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

182۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا (بقرۃ :245) ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔“ تو یہودیوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا: اللہ مفلس و محتاج ہو گیا جو اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے۔ یہودیوں کے اس کافرانہ قول اور انبیاء علیہ السلام کے ناحق قتل کو ثبت کرنے سے مراد شاید یہ ہو کہ ان کا قول و فعل بذات خود ثبت اور محفوظ ہو نیز ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ فرشتوں کے ذریعے ثبت اور محفوظ کر لیا جاتا ہو۔

دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہودیوں کو عذاب جہنم سے دو چار خود ان کے اعمال نے کیا ہے جو خود مختارانہ طور پر انہوں نے انجام دیے۔ ورنہ اللہ تو بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یعنی اگر یہ خود اپنے اختیار و ارادے سے ان جرائم کا ارتکاب نہ کرتے تو ان کو سزا دینا ظلم ہوتا۔ اس سے امامیہ کا نظریہ لاجبر و لا تفویض ثابت ہو جاتا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰی یَاۡتِیَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡکُلُہُ النَّارُ ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِیۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡہُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۱۸۳﴾

۱۸۳۔ جو لوگ کہتے ہیں: ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب تک کوئی رسول ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ آ کر کھا جائے، ہم اس پر ایمان نہ لائیں، کہدیجئے: مجھ سے پہلے بھی رسول روشن دلیل کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور جس کا تم ذکر کرتے ہو وہ بھی لائے تو اگر تم سچے ہو تو تم لوگوں نے انہیں کیوں قتل کیا ؟

183۔یہودیوں نے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ ہمارے سامنے ایک جانور کی قربانی پیش کریں جسے غیبی آگ آ کر کھا لے تب ہم آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کو تسلیم کریں گے۔ یہودیوں کا یہ مطالبہ رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے انکار کے لیے ایک بہانہ تھا۔ قرآن اس بہانہ سازی کو فاش کرتا ہے اور تاریخی شواہد سے ثابت کرتا ہے کہ ان کا یہ مطالبہ طلب حق کے لیے نہیں، جس کے لیے معجزہ دکھانا ضروری ہو بلکہ صرف حیلہ سازی ہے۔ چنانچہ بائبل سلاطین باب 18۔ 19 میں ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام نے عیناً یہی معجزہ دکھایا لیکن یہودی بادشاہ انہیں قتل کرنے پر مصر رہا۔

فَاِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقَدۡ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ جَآءُوۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔ (اے رسول ) اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ) آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں جو معجزات، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔

184۔ اس آیت میں رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے سامان تسکین ہے اور اس الہٰی دعوت کی راہ میں داعیان حق کو پیش آنے والے ایک بنیادی مسئلے یعنی تکذیب کا ذکر ہے کہ ہر نبی کو اس کا مقابلہ کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود کسی نبی کی کامیابی کی راہ میں تکذیب رکاوٹ نہیں بنی۔

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدۡخِلَ الۡجَنَّۃَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ﴿۱۸۵﴾

۱۸۵۔ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تمہیں تو قیامت کے دن پورا اجر و ثواب ملے گا (در حقیقت) کامیاب وہ ہے جسے آتش جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے، (ورنہ) دنیاوی زندگی تو صرف فریب کا سامان ہے۔

185۔ یہ ارضی زندگی عارضی ہے۔ اس نے گزر جانا ہے۔ اس وقتی زندگی کو کامیابی اور ناکامی کا معیار نہیں بنانا چاہیے۔ یہاں کسی کو فراوان نعمتیں دی گئی ہیں، کوئی جاہ و جلالت کی کرسی پر متمکن ہے تو کوئی مصائب و مشکلات میں مبتلا ہے۔ یہ امور حق و باطل اور کامیابی و ناکامی کے حتمی نتائج نہیں ہیں۔اس آزمائشی اور وقتی زندگی میں اجر و ثواب کی توقع نہ رکھو۔ یہ دار عمل ہے، دار ثواب نہیں ہے۔ اس لیے روز قیامت سارے کا سارا اجر و ثواب پاؤ گے۔

لَتُبۡلَوُنَّ فِیۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ لَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ﴿۱۸۶﴾

۱۸۶۔ (مسلمانو!)تمہیں ضرور اپنے مال و جان کی آزمائشوں کا سامنا کرنا ہو گا اور تم ضرور اہل کتاب اور مشرکین سے دل آزاری کی باتیں کثرت سے سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔

186۔ اس آیۂ شریفہ میں اموال و انفس کے امتحان کے ساتھ ایک نفسیاتی حربے کا بھی ذکر ہوا ہے۔ اہلِ کتاب اور مشرکین کے اس حربے کا مسلمانوں کو صبر و استقلال کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔ چنانچہ اسلام کے خلاف طعن و تشنیع اور الزام تراشی پر مبنی ان کے نشریاتی ادارے آج بھی مصروف کار ہیں۔

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکۡتُمُوۡنَہٗ ۫ فَنَبَذُوۡہُ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ وَ اشۡتَرَوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَبِئۡسَ مَا یَشۡتَرُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔ اور (یاد کرنے کی بات ہے کہ) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیں یہ کتاب لوگوں میں بیان کرنا ہو گی اور اسے پوشیدہ نہیں رکھنا ہو گا، لیکن انہوں نے یہ عہد پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا، پس ان کا یہ بیچنا کتنا برا معاملہ ہے۔

187۔اہل کتاب کی عہد شکنی کو قرآن امت مسلمہ کے اذہان میں اس تاکید اور وضاحت و صراحت کے ساتھ راسخ کرنا چاہتا ہے گویا اس امت کو سب سے زیادہ پیش آنے والا مسئلہ یہی ہو گا اور سب سے زیادہ بنیادی نوعیت کا مسئلہ بھی یہی رہے گا۔ تعجب اس بات پر ہے کہ قرآن کی اس تاکید و اصرار کے باوجود مسلمانوں نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ان عہد شکنوں کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ وہ ہزارہا تجربات کے باوجود بھی انہی نا پائیدار معاہدوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔

لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَفۡرَحُوۡنَ بِمَاۤ اَتَوۡا وَّ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ یُّحۡمَدُوۡا بِمَا لَمۡ یَفۡعَلُوۡا فَلَا تَحۡسَبَنَّہُمۡ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الۡعَذَابِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۸۸﴾

۱۸۸۔جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہیں اور ان کاموں پر اپنی تعریفیں سننا چاہتے ہیں جو انہوں نے نہیں کیے، لہٰذا آپ انہیں عذاب سے محفوظ نہ سمجھیں، بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔

188۔ اس آیت کا شان نزول بعض مفسرین کے نزدیک یہود ہیں اور بعض کے نزدیک منافقین۔ ہر دو صورت میں الفاظ کے عموم کے تحت ہر وہ شخص اس آیت کا مصداق ہے جو اپنے حق میں اس قسم کی تعریفیں سننا چاہتا ہے جن کا وہ مستحق نہیں ہے اور جن پر اس نے عمل ہی نہیں کیا۔ مثلاً یہ کہ فلاں صاحب نے ملک کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان کے عہد میں ملک نے بے انتہا ترقی کی ہے، جب کہ اس نے ملک کو نقصان پہنچایا اور لوٹا ہو یا یہ کہ جناب بہت بڑے علامہ، مجتہد، دیانتدار، مخلص اور متقی ہیں، جب کہ وہ اندر سے اس کے برعکس ہوں۔

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۸۹﴾٪

۱۸۹۔اور(وہ بچ کر کہاں جائیں گے) زمین و آسمان اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۱۹۰﴾ۚۙ

۱۹۰۔بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔