وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکۡتُمُوۡنَہٗ ۫ فَنَبَذُوۡہُ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ وَ اشۡتَرَوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَبِئۡسَ مَا یَشۡتَرُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔ اور (یاد کرنے کی بات ہے کہ) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیں یہ کتاب لوگوں میں بیان کرنا ہو گی اور اسے پوشیدہ نہیں رکھنا ہو گا، لیکن انہوں نے یہ عہد پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا، پس ان کا یہ بیچنا کتنا برا معاملہ ہے۔

187۔اہل کتاب کی عہد شکنی کو قرآن امت مسلمہ کے اذہان میں اس تاکید اور وضاحت و صراحت کے ساتھ راسخ کرنا چاہتا ہے گویا اس امت کو سب سے زیادہ پیش آنے والا مسئلہ یہی ہو گا اور سب سے زیادہ بنیادی نوعیت کا مسئلہ بھی یہی رہے گا۔ تعجب اس بات پر ہے کہ قرآن کی اس تاکید و اصرار کے باوجود مسلمانوں نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ان عہد شکنوں کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ وہ ہزارہا تجربات کے باوجود بھی انہی نا پائیدار معاہدوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔