ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿۱۸۲﴾ۚ

۱۸۲۔ یہ خود تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے اور بے شک اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

182۔ جب یہ آیت نازل ہوئی: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا (بقرۃ :245) ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔“ تو یہودیوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا: اللہ مفلس و محتاج ہو گیا جو اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے۔ یہودیوں کے اس کافرانہ قول اور انبیاء علیہ السلام کے ناحق قتل کو ثبت کرنے سے مراد شاید یہ ہو کہ ان کا قول و فعل بذات خود ثبت اور محفوظ ہو نیز ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ فرشتوں کے ذریعے ثبت اور محفوظ کر لیا جاتا ہو۔

دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہودیوں کو عذاب جہنم سے دو چار خود ان کے اعمال نے کیا ہے جو خود مختارانہ طور پر انہوں نے انجام دیے۔ ورنہ اللہ تو بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یعنی اگر یہ خود اپنے اختیار و ارادے سے ان جرائم کا ارتکاب نہ کرتے تو ان کو سزا دینا ظلم ہوتا۔ اس سے امامیہ کا نظریہ لاجبر و لا تفویض ثابت ہو جاتا ہے۔