یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚ٪ۛ

۱۷۱۔ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۲﴾ۚ

۱۷۲۔جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کے حکم کی تعمیل کی، ان میں سے جو لوگ نیکی کرنے والے اور تقویٰ والے ہیں، ان کے لیے اجر عظیم ہے۔

172۔ اصحاب رسول میں دو بھائی احد کی جنگ میں شریک تھے اور دونوں مجروح تھے جب رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سفیانی فوج کے تعاقب کا حکم دیا تو یہ دونوں مجروح بھائی زخمی حالت میں اس خیال سے نکلے کہ نہ معلوم ہمیں پھر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معیت میں جنگ کرنے کی سعادت حاصل ہو گی یا نہیں۔

اس آیت میں نہایت قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اجر عظیم کا وعدہ سب لبیک کہنے والوں کے لیے نہیں بلکہ ان میں سے نیکی کرنے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے ہے۔ کیونکہ بظاہر لبیک کہنے کے اور بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جنگوں میں رونما ہونے والی صورت حال شاہد ہے کہ لشکر اسلام میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے تھے جو بظاہر سب ہی جنگ میں حاضر ہونے کے لیے اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک کہتے تھے، لیکن اَحۡسَنُوۡا اور وَ اتَّقَوۡا کے مقام پر فائز نہ تھے۔

اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔ جب کچھ لوگوں نے ان (مومنین) سے کہا: لوگ تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں پس ان سے ڈرو تو (یہ سن کر) ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور وہ کہنے لگے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔

فَانۡقَلَبُوۡا بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ لَّمۡ یَمۡسَسۡہُمۡ سُوۡٓءٌ ۙ وَّ اتَّبَعُوۡا رِضۡوَانَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔ چنانچہ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ کر آئے، انہیں کسی قسم کی تکلیف بھی نہیں ہوئی اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

174۔ اس خیال سے کہ جنگِ احد سے واپس جاتے ہوئے مشرکین دوبارہ مدینے پر حملہ نہ کر دیں، رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگِ احد کے دوسرے دن مسلمانوں کو کفار کے تعاقب کا حکم دیا۔ چنانچہ حمراء الاسد نامی جگہ تک جو مدینے سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے تعاقب کیا گیا لیکن دشمن کا سامنا نہ ہوا اور مسلمان عافیت کے ساتھ واپس آ گئے۔ دشمن کا خوف کرنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے پیش آنے والے برے نتائج کا خوف کرو جیسا کہ احد کے تجربے سے ظاہر ہوا۔

اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۪ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَ خَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔ یہ ( خبر دینے والا) شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان لوگوں سے نہیں مجھ سے ڈرو۔

175۔ اس آیت میں افواہ پھیلانے والے انسان کو شیطان کہا گیا۔ چنانچہ قرآن متعدد مقامات پر انسان اور جن دونوں کے لیے لفظ شیطان استعمال کرتا ہے۔ پس شیطان سے مراد کوئی خاص شخص نہیں بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہر وہ انسان یا جن شیطان ہے جو انسانوں کو گمراہ کرے اور اسلام و مسلمین کے خلاف سازش کا حصہ بنے۔

وَ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ ۚ اِنَّہُمۡ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَلَّا یَجۡعَلَ لَہُمۡ حَظًّا فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۷۶﴾

۱۷۶۔اور (اے رسول) جو لوگ کفر میں سبقت لے جاتے ہیں (ان کی وجہ سے) آپ آزردہ خاطر نہ ہوں، یہ لوگ اللہ کو کچھ بھی ضرر نہیں دے سکیں گے، اللہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کے نصیب میں ان کا کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لیے تو بڑا عذاب ہے۔

176۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسکین کے لیے فرمایا: لوگوں کی کفر میں سبقت سے اللہ کے دین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہیں کفر اختیار کرنے کے لیے ڈھیل دی گئی ہے جو خود ان کے لیے عذاب عظیم کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡکُفۡرَ بِالۡاِیۡمَانِ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ جنہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر خرید لیا ہے وہ بھی اللہ کو کوئی ضرر نہیں دے سکیں گے اور خود ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ خَیۡرٌ لِّاَنۡفُسِہِمۡ ؕ اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۱۷۸﴾

۱۷۸۔ اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے، ہم تو انہیں صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں اور آخرکار انکے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔

178۔ ذہنوں میں اٹھنے والا ایک سوال، کیا بات ہے کہ جو لوگ حق پر نہیں وہ عیش و نوش میں مال و دولت سے مالا مال ہوتے ہیں، جو ہاتھ ظلم کے لیے اٹھتے ہیں وہی ہاتھ لمبے ہوتے ہیں، جو دوسروں کا مال غصب کرتے ہیں، انہی کی دولت پھلتی پھولتی ہے؟ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ ڈھیل ایک امتحان ہے کہ کافر اپنے بارِ گناہ میں اضافہ کرتا رہے۔

جناب سیّدہ زینب بنت علی علیہما السلام نے یزید کو اسی آیت سے جواب دیا تھا جب یزید نے اہلِ بیت علیہ السلام کو طنز کرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی: وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ... ۔

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطۡلِعَکُمۡ عَلَی الۡغَیۡبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَلَکُمۡ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔اللہ مومنوں کو اس حال میں رہنے نہیں دے گا جس حالت میں اب تم لوگ ہو اور یہاں تک کہ پاک (لوگوں) کو ناپاک (لوگوں) سے الگ کر دے اور اللہ تمہیں غیب کی باتوں پر مطلع نہیں کرے گا بلکہ ( اس مقصد کے لیے) اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ، اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہیں اجر عظیم ملے گا۔

179۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ آزمائش و امتحان کے ذریعے مومن و منافق میں امتیاز ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اللہ یہ کام علم غیب سے آگاہی کے ذریعے انجام دے اور بتا دے کہ مومن کون ہے اور منافق کون ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کیونکہ حکمت الٰہی یہ ہے کہ ایمان و نفاق کا تعیّن عمل و کردار کے ذریعے ہو۔

وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمۡ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۱۸۰﴾٪

۱۸۰۔اور جو لوگ اللہ کے عطا کردہ فضل میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، جس چیز میں وہ بخل کرتے تھے وہ قیامت کے دن گلے کا طوق بن جائے گی اور آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

180۔مومنین میں تطہیر کے ذکر کے بعد بخل کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بخل کرنے والے شخص کا حال بھی ان لوگوں سے مختلف نہیں ہے جنہیں ڈھیل دی جاتی ہے اور یہ ان کے حق میں بہتر نہیں ہے نیز مال کو فضل خدا سے تعبیر کرنے سے بخل کی برائی اور واضح ہو جاتی ہے کہ جب مال اللہ کی طرف سے فضل و کرم ہے تو اسے اسی کی راہ میں خرچ نہ کرنا نہایت بیوقوفی اور حماقت ہے۔