آیات 190 - 192
 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۱۹۰﴾ۚۙ

۱۹۰۔بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔

الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۱۹۱﴾

۱۹۱۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ﴿۱۹۲﴾

۱۹۲۔ اے ہمارے رب! تو نے جسے جہنم میں ڈالا اسے یقینا رسوا کیا پھر ظالموں کا کوئی مددگار بھی نہ ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: آسمانوں اور زمین کی خلقت نیز شب و روز کی آمد و رفت کے بارے میں سورہ بقرہ آیت ۱۶۴ کی تفسیر میں قدرے تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: الکوثر فی تفسیر القرآن جلد اول صفحہ ۴۵۲۔

۲۔ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ: دوسری آیت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ صاحبان عقل پر جب اللہ کی نشانیاں واضح ہو جاتی ہیں تو درج ذیل نتائج مترتب ہوتے ہیں:

i۔ ان کے قلب و ضمیر میں ذکر خدا رچ بس جاتاہے جو ایمان و ایقان کالازمہ ہے۔ ہر حال میں ان کے ذہن و شعور میں یاد خدا حاوی رہتی ہے۔ ان میں تین حالتوں کا ذکر ہے، جن سے انسان خالی نہیں ہوتا۔

الف: قِیٰمًا: چل رہا ہو یا ویسے کھڑا ہو یا کام کاج کر رہا ہو۔

ب: قُعُوۡدًا: بیٹھا ہوا ہو، جس کام میں مشغول ہو، کوئی معاملہ کررہا ہو، اللہ کو نہ بھولے۔ یعنی حکم خدا کے خلاف قدم نہ اٹھائے۔

ج: وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ: اگر لیٹا ہوا ہو تو کروٹوں پر بھی یاد خدا کرے۔ کروٹ بدلتے ہوئے یا رحمن، یا رحیم کہدے۔

ہر حال میں نماز: الکافی ۳: ۴۱۱ میں اس آیت کے ذیل میں روایت ہے:

الصحیح یصلی قائماً و قعوداً المریض یصلی جالساً و علی جنوبہم الذی یکون اضعف من المریض الذی یصلی جالساً ۔

صحیح سالم شخص اٹھ کر اور بیٹھ کر نماز پڑھے گا، مریض بیٹھ کر نماز پڑھے گا اور جو بیٹھ کر نماز پڑھنے والے مریض سے بھی زیادہ کمزور ہو وہ لیٹ کر نماز پڑھے گا۔

ii۔ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: آسمانوں اور زمین کی خلقت کے بارے میں غور و فکر کا عمل جاری رہتا ہے اور وہ ہر شے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ یعنی وہ صاحبان ذکر و فکر بن جاتے ہیں۔امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

فکرۃ ساعۃ خیر من عبادۃ سنۃ ۔ (مصباح الشریعۃ ص ۱۱۳)

ایک گھڑی کی فکر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

چونکہ ایک گھڑی کی فکر انسان کی پوری زندگی کا رخ درست کرتی ہے۔

iii۔ صاحبان عقل اللہ کی اس کائنات کے علاوہ خود انسان کی خلقت کے راز کو بھی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ درک کرتے ہیں کہ اس عقل و شعور کے مالک انسان کو اللہ نے بے مقصد اور فضول خلق نہیں فرمایا کہ وہ کھائے، پیے، بلا وجہ دکھ درد اٹھائے اور بالآخر کسی نامعلوم منزل کی طرف بے مقصد حرکت کرتے ہوئے نیست و نابود ہو جائے۔ اللہ کی کائنات میں موجود اسرار و رموز کے انکشاف پر اقرار باللسان کرتے ہوئے وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں: سُبۡحٰنَکَ ۔ اے اللہ! تیری ذات اس قسم کی عبث اور فضول باتوں سے پاک و منزہ ہے۔ اس کائنات کی کوئی شے بے مقصد، فضول اور عبث خلق نہیں ہوئی۔

اس فہم و ادراک کا لازمہ یہ ہے کہ انسان مٹنے والا نہیں ہے۔ وہ ایک ابدی حیات گزارنے کے لیے آیا ہے، جس میں کامیابی کے لیے جہنم سے نجات اور ابدی فلاح ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ چنانچہ صاحبان عقل اللہ کی بارگاہ میں یہی دعا کرتے ہیں: فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔

اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ: جس کو تو نے آتش جہنم میں ڈال دیا اسے رسوا کر دیا۔ قیامت کے دن آتش میں جسمانی عذاب سے، اللہ کے حضور اور لوگوں کے درمیان رسوائی زیادہ کربناک عذاب ہو گا۔ جو ظالمین کی صف میں ہو گا اس کی مدد یا سفارش کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ البتہ جو لوگ سفارش اور شفاعت کے اہل ہیں، ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ملے گی۔

اہم نکات

۱۔ حکیم و دانا کاکوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

۲۔ کائنات کی ہر شے اللہ کی واضح نشانی ہے۔


آیات 190 - 192