آیت 175
 

اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۪ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَ خَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔ یہ ( خبر دینے والا) شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان لوگوں سے نہیں مجھ سے ڈرو۔

تفسیر آیات

کسی نے مسلمانوں میں یہ خبر پھیلا دی کہ ابو سفیان کا لشکر دوبارہ مدینے پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس خبر کو پھیلانے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان مرعوب ہو جائیں، جب کہ وہ مرعوب نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ان کا خوف نہ کرو۔ دشمن کے حملے سے خوفزدہ ہونے کی بجائے، اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں پیش آنے والے برے نتائج کا خوف کرو، جیساکہ احد کے تجربے سے ظاہر ہوا۔

اس آیت میں افواہ پھیلانے والے انسان کو شیطان کہا گیا۔ چنانچہ قرآن متعدد مقامات پر انسان اور جن دونوں کے لیے لفظ شیطان استعمال کرتا ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ ۔۔۔ (۶انعام:۱۱۲)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جن و انس کے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے۔۔۔۔

وَ اِذَا خَلَوۡا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمۡ ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۴)

اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں۔

پس شیطان سے مراد کوئی خاص شخص نہیں بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہر وہ انسان یا جن شیطان ہے جو انسانوں کو گمراہ کرے اور اسلام و مسلمین کے خلاف سازش کا حصہ بنے۔

اہم نکات

۱۔ مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے افواہ پھیلانا شیطانی عمل ہے: اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۔۔۔۔

۲۔ بے ایمان لوگ ہی شیطانی افواہوں سے متاثر ہوتے ہیں: یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۔۔۔۔

۳۔ اہل ایمان صرف اللہ کا خوف رکھتے ہیں: فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ ۔۔۔ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۔


آیت 175