آیات 173 - 174
 

اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔ جب کچھ لوگوں نے ان (مومنین) سے کہا: لوگ تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں پس ان سے ڈرو تو (یہ سن کر) ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور وہ کہنے لگے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔

فَانۡقَلَبُوۡا بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ لَّمۡ یَمۡسَسۡہُمۡ سُوۡٓءٌ ۙ وَّ اتَّبَعُوۡا رِضۡوَانَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔ چنانچہ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ کر آئے، انہیں کسی قسم کی تکلیف بھی نہیں ہوئی اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

تشریح کلمات

حَسْبُنَا:

( ح س ب حَسۡبُنَا ہمارے لیے کافی ہے۔ جیسے عَطَآءً حِسَابًا (۷۸ نبا: ۳۶) میں حِسَابًا کافی ہونا کے معنوں میں آیا ہے۔ یہ لفظ حساب سے ہی ہے اور کافی ہونا ضرورت کے حساب سے ہے۔ لہٰذا اس لفظ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ ہماری ضروریات کا حساب جاننے والا ہے کہ ہمیں کس قدر تائید و نصرت کی ضرورت ہے۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ بس وہی کافی ہے۔

الۡوَکِیۡلُ:

( و ک ل ) کارساز۔ ذمہ دار۔ اعتماد۔ بھروسا۔

تفسیرآیات

اس آیت کے شان نزول میں بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت واقعۂ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حمراء الاسد وہ جگہ ہے، جہاں تک لشکر اسلام نے جنگ احد کے بعد مشرکین کا تعاقب کیا تھا۔ مشرکین میں دوبارہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رہی اور وہ مکہ چلے گئے۔ لشکر اسلام بغیر کسی تکلیف کے سلامتی کے ساتھ واپس آ گیا۔

بعض کاخیال یہ ہے کہ یہ آیت بدر صغریٰ کے بارے میں نازل ہوئی۔ چونکہ ابوسفیان نے احد سے واپس جاتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ سال بدر میں مسلمانوں کا مقابلہ کرے گا۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) مقررہ وقت پر اپنے لشکر کے ساتھ بدر پہنچ گئے، لیکن ابوسفیان کا لشکر راستے سے واپس چلا گیا اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کی۔ لشکر اسلام آٹھ روز تک قیام کرنے کے بعد عافیت کے ساتھ واپس آ گیا۔ لیکن قرین قیاس یہ ہے کہ یہ آیت جنگ احد کے بعد واقعۂ حمراء الاسد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ سلسلۂ کلام جنگ احد کے بارے میں جاری ہے۔

۱۔ اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ: اللہ اور رسول کو لبیک کہنے والوں کے بارے فرمایا: یہ وہی لوگ ہیں جن سے کچھ لوگوں نے کہا۔ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ ۔ روایات میں آتا ہے اس جگہ النَّاسُ سے مراد نعیم بن مسعود ہے، جس نے یہ خبر دی تھی کہ ابوسفیان کا لشکر دوبارہ مدینے پر حملہ کرنے والا ہے۔

۲۔ فَاخۡشَوۡہُمۡ: اس خبر دینے والے نے کہا: ابو سفیان کے لشکر سے خوف کرو تو خوف کرنے کی جگہ ان مؤمنین کے ایمان میں اضافہ ہوا۔

۳۔ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا: یعنی اس خبر سے خوف کی جگہ جہاد کرنے کے عزم و ارادے میں اضافہ ہوا۔ اسلام کے لیے حمیت و غیرت میں اضافہ ہوا، جو ایمان کے آثار ہیں۔ آثار میں اضافے سے ایمان میں اضافہ کا علم ہوتا ہے۔

۴۔ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ: اس ایمان کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا: ان مشرکین کے مقابلے میں ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔

۵۔ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ: وہ بہترین ذات ہے، جس پر توکل اور بھروسا کیا جاتا ہے۔

۶۔ فَانۡقَلَبُوۡا بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ: چنانچہ ابوسفیان کے لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کی۔ لشکر اسلام سلامتی کے ساتھ واپس ہوا۔ اس واپسی میں چند چیزیں ان کے نصیب میں آئیں: دشمن کو مرعوب کیا۔ وَ فَضۡلٍ ۔۔۔۔ تجارت میں منافع کے ساتھ لَّمۡ یَمۡسَسۡہُمۡ ۔۔۔ دشمن سے کوئی گزند نہیں پہنچی۔ وَّ اتَّبَعُوۡا رِضۡوَانَ اللّٰہِ ۔۔۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ کی خوشنودی کی اتباع کا شرف نصیب ہوا۔

اہم نکات

۱۔ باطل اکثریت کی مادی طاقت اور دھمکیوں سے متقی مسلمان مرعوب نہیں ہوتے بلکہ ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے: اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ ۔۔۔ اِیۡمَانًا ۔

۲۔ اللہ کی طرف سے اہل ایمان کی مکمل اور بہترین سرپرستی پر مومنین کو یقین ہے: وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ ۔

۳۔ حمراء الاسد میں بلا مشقت کامیابی کا راز یہ تھا کہ اس دفعہ کوئی غیر مخلص مسلمان، مجاہدین کے ساتھ نہیں تھا: فَانۡقَلَبُوۡا بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ لَّمۡ یَمۡسَسۡہُمۡ سُوۡٓءٌ ۙ وَّ اتَّبَعُوۡا رِضۡوَانَ اللّٰہِ ۔۔۔۔


آیات 173 - 174