آیت 172
 

اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷۲﴾ۚ

۱۷۲۔جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کے حکم کی تعمیل کی، ان میں سے جو لوگ نیکی کرنے والے اور تقویٰ والے ہیں، ان کے لیے اجر عظیم ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا: جنگ احد کے بعد مشرکین واپس جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں خیال آیا کہ مسلمانوں کی شکست سے ہم نے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔ چنانچہ انہو ں نے ایک جگہ توقف کیا اور آپس میں مشورہ کیا کہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کر دیا جائے لیکن وہ جرأت نہ کر سکے اور مکہ چلے گئے۔ دوسری طرف جنگ احد کے دوسرے دن رسول اکرم (ص) نے بھی اس خطرے کے پیش نظر کہ کفار واپس پلٹ کر دوبارہ حملہ نہ کر دیں، مسلمانوں کو کفار کے تعاقب میں چلنے کا حکم دیا۔ بعض لوگوں نے رسول (ص) کی اس دعوت پر یہ بہانہ بنا کر لبیک نہیں کہی کہ ہمارے جسم پر زخم ہیں۔ بعض دیگر مجاہدین نے زخموں کے باوجود رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہی۔ چنانچہ حمراء الاسد نامی جگہ تک جو مدینے سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے، تعاقب کیا گیا۔

۲۔ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا: اس آیت میں نہایت قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اجر عظیم کا وعدہ سب لبیک کہنے والوں کے لیے نہیں، بلکہ ان میں سے نیکی کرنے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے ہے۔ کیونکہ بظاہر لبیک کہنے کے اور بھی عوامل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جنگوںمیں رونما ہونے والی صورت حال شاہد ہے کہ لشکر اسلام میں مختلف قسم کے لوگ ہوتے تھے جو بظاہر سب ہی جنگ میں حاضر ہونے کے لیے اللہ اور رسول (ص) کی آواز پر لبیک کہتے تھے، لیکن اَحۡسَنُوۡا اور اتَّقَوۡا کے مقام پر فائز نہ تھے۔

اہم نکات

۱۔ اجر عظیم کا مستحق ہونے کے لیے ضروری امور: i۔ تقویٰ: اتَّقَوۡا ۔۔۔۔ ii۔ احسان: اَحۡسَنُوۡا ۔۔۔۔ iii۔ مشکلات کا سہنا: مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ۔۔۔۔ iv۔ اللہ اور رسول (ص) کے ہر حکم کی تعمیل: اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۔۔۔۔

۲۔ عصر رسول (ص) کے مجاہدین میں سے صرف بعض لوگ تقویٰ اور احسان سے متصف تھے: لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا ۔۔۔۔


آیت 172