آیات 169 - 171
 

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ﴿۱۶۹﴾ۙ

۱۶۹۔ اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔

فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۱۷۰﴾ۘ

۱۷۰۔اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚ٪ۛ

۱۷۱۔ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا: موت شعور سلب ہونے سے عبارت ہے۔ شہید چونکہ رزق پاتے ہیں، لہٰذا وہ شعور کی زندگی گزار رہے ہیں اور خوشی بھی شعور کی علامت ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ آخرت میں مومنین کے لیے جو ثواب مہیا کر رکھا ہے، وہ ان کی موت سے پہلے ہی اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

۲۔ بَلۡ اَحۡیَآءٌ: اللہ سے رزق حاصل کرنے کا ایک لازمہ یہ ہے کہ اس رزق کے بعد نہ خوف رہتا ہے نہ حزن و ملال۔ کیونکہ جب کسی موجود اور میسر خوبی و آسائش کے سلب ہونے کا خطرہ ہو تو خوف لاحق ہوتا ہے اور اگر کوئی چیز سلب ہو جائے تو حزن و ملال ہوتا ہے۔ اخروی زندگی میں رب کی بارگاہ سے رزق پانے کے بعد اس کے سلب ہونے کاکوئی خطرہ قابل تصور نہیں ہے۔ لہٰذا کسی قسم کے خوف کا بھی وہاں تصور نہیں ہے نیز یہ رزق ابدی ہے، لہٰذا اس کے چھن جانے کی نوبت نہیں آ سکتی، اس لیے حزن بھی قابل تصور نہیں ہے۔ (شہداء کی حیات کے بارے میں مزید تفسیر کے لیے ملاحظہ فرمائیں بقرہ : ۱۵۴)

۳۔ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ: اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ اس سے ان کی حیات کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حیات دنیوی حیات کی طرح بھی نہیں ہے اور باقی ارواح کی حیات کی طرح بھی نہیں ہے، بلکہ ایک خاص حیات ہے۔

اس آیت میں شہیدوں کی حیات کے چند آثار بیان ہوئے ہیں:

i۔ اللہ کے پاس سے رزق پاتے ہیں۔ ظاہر ہے رزق سے لذت پاتے ہیں، محظوظ ہوتے ہیں۔

ii۔ فَرِحِیۡنَ: اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے اس پر خوش ہیں۔ جس رزق کا پہلے ذکر ہوا ہے، یہ اس پر مزید فضل و کرم کا ذکر ہے۔

iii۔ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ: جو زندگی شہیدوں کو مل رہی ہے، وہ اس قدر کیف و سرور کی زندگی ہے کہ وہ اپنے آنے والے دوستوں کے لیے بھی اس زندگی کے ملنے کی خوشی سے محظوظ ہو رہے ہیں۔

iv۔ اس پر مزید نعمت و فضل الٰہی پر خوش ہیں: بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ۔

وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ: یہ مکمل ادراک کہ اللہ کے ہاں اہل ایمان کا اجر ضائع نہیں جاتا، یہاں ناقدری نہیں ہوتی۔ یہ ادراک خود اپنی جگہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات کے ادراک سے بھی کیف و سرور حاصل ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ ہر نعمت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے: بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۔

۲۔ شہیدوں کو خوف اور غم سے پاک زندگی ملے گی۔


آیات 169 - 171