والدین کے ساتھ خوبی یا بدی کا انجام


وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ ۚ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚۖ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اف ہو! کیا تم دونوں مجھے ڈراتے ہو کہ میں (قبر سے) پھر نکالا جاؤں گا؟ جبکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے (اولاد سے) کہتے تھے: تیری تباہی ہو! تو مان جا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر (بھی) وہ کہتا ہے: یہ تو صرف اگلوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں۔

17۔ دو کرداروں اور دو مختلف اقدار کے مالکوں کا ذکر ہے۔ اعلیٰ انسانی اقدار کا مالک انسان اپنے والدین اور اپنے پروردگار کے ساتھ اس طرح خوبی سے پیش آتا ہے اور جو انسانی قدروں کا حامل نہیں ہے اس کا کردار اپنے والدین اور اپنے رب کے ساتھ منفی ہوتا ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر فیصلہ حتمی ہو چکا ہے جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں بے شک یہ خسارہ اٹھانے والے تھے۔

وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ۚ وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات ہیں تاکہ انہیں ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

19۔ یعنی مذکورہ بالا دونوں کرداروں کو اپنے کردار کے حساب سے جزا یا سزا دی جائے گی۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔

وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ : ان کو ان کے اعمال پورے کر دیے جائیں گے، یعنی ان کو ان کے اعمال بغیر کمی بیشی کے پورے کر کے دے دیے جائیں گے۔ خود اعمال پورے کر کے دینے کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ انسانی اعمال پر اللہ تعالیٰ جزا اور سزا مرتب نہیں کرے گا، بلکہ خود اعمال جزا اور سزا بن کر سامنے آئیں گے، لیکن آیت سے عام مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ چنانچہ ہم نے ترجمے میں یہی عام مفہوم اختیار کیا ہے۔ تاہم ہم نے پہلے بھی اس نظریے کا ذکر کیا ہے: انسانی عمل ایک مرتبہ وجود میں آتا ہے۔ اس کو دوام ملتا ہے اور انرجی کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ عین ممکن ہے قیامت کے دن انسان کو اس کے عمل کا سامنا کرنا پڑے۔ یعنی خود عمل جزا و سزا بن جائے، جیسا کہ اس آیت کا ظاہری معنی ہے۔