آیت 17
 

وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ ۚ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚۖ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اف ہو! کیا تم دونوں مجھے ڈراتے ہو کہ میں (قبر سے) پھر نکالا جاؤں گا؟ جبکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے (اولاد سے) کہتے تھے: تیری تباہی ہو! تو مان جا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، پھر (بھی) وہ کہتا ہے: یہ تو صرف اگلوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ: اس شخص کا ذکر ہے جو انسانی قدروں کا حامل نہیں ہے۔ اس کا اپنے والدین کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے؟ وہ والدین جو اسے ابدی ہلاکت سے بچانا چاہتے اور ایمان بہ آخرت کی دعوت دیتے ہیں۔

۲۔ تو یہ قدروں سے محروم شخص اپنے والدین کی اس مہر و محبت پر مبنی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہتا ہے: اَتَعِدٰنِنِیۡۤ اَنۡ اُخۡرَجَ مجھے اس بات سے ڈراتے ہومیں قبر سے نکالا جاؤں گا، دوبارہ زندہ ہو جاؤں گا۔ کسی حساب کتاب کا سامنا کرنا ہو گا۔ وَ قَدۡ خَلَتِ الۡقُرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلِیۡ: ایک نہیں، کئی نسلیں گزر چکی ہیں۔ آج تک کوئی ایک شخص دوبارہ زندہ ہو اہے نہ آئندہ زندہ ہو گا۔

۳۔ وَ ہُمَا یَسۡتَغِیۡثٰنِ اللّٰہَ: مہربان والدین اس سرکش اور گستاخ فرزند کی ہدایت و نجات کے لیے اللہ کی مدد مانگ رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں: اے اللہ اس فرزند کو راہ راست پر لانے میں ہماری مدد فرما مگر بیٹے میں اس بات کی اہلیت نہیں ہے کہ اس کے بارے میں والدین تک کی دعا قبول ہو۔

۴۔ وَیۡلَکَ اٰمِنۡ ٭ۖ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ: اے بیٹا! ایمان لے آ، اللہ کا وعدۂ قیامت برحق ہے۔ اس دنیا میں کوئی دوبارہ واپس نہیں آئے گا، نہ اللہ نے کوئی ایسا وعدہ کیا ہے۔ وعدہ آخرت کا ہے مگر بیٹا اپنی گمراہی پر اڑا ہوا ہے اور کہتا ہے:

۵۔ فَیَقُوۡلُ مَا ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ: دوبارہ زندگی کی کہانی داستانہائے پارینہ ہے جو کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

تفسیر ابن کثیر و دیگر تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں یہ واقعہ مذکور ہے:

جب معاویہ نے اپنے بیٹے (یزید) کے لیے بیعت لینے کا حکمنامہ مروان کو لکھا تو عبد الرحمن بن ابی بکر نے کہا: تم نے خلافت کو ملوکیت بنا دیا کہ اپنے بیٹے کے لیے بیعت لینے لگے۔ مروان نے کہا: لوگو یہ وہی آدمی ہے جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی وَ الَّذِیۡ قَالَ لِوَالِدَیۡہِ اُفٍّ لَّکُمَاۤ۔۔۔۔ حضرت عائشہ کو یہ خبر ملی تو غصے میں آ کر کہا: یہ آیت عبدالرحمن کے بارے میں نہیں ہے۔ اگر چاہوں تو کہ سکتی ہوں کس کے بارے میں ہے لیکن اے مروان! تو وہی ہے کہ تمہارے باپ پر اللہ کے رسولؐ نے اس وقت لعنت بھیجی جب تو اس کے صلب میں تھا۔

حضرت عائشہ کو یہ گمان تک نہ تھا کہ مستقبل میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والی لعنت کو رحمت سمجھیں گے۔

اہم نکات

۱۔ انسانی قدروں سے محروم شخص راہ راست پر نہیں آتا خواہ اس کی دعوت دینے والے اس کے والدین کیوں نہ ہوں۔


آیت 17