جزا و سزا تجسم اعمال یا بدلہ


وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ۚ وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات ہیں تاکہ انہیں ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

19۔ یعنی مذکورہ بالا دونوں کرداروں کو اپنے کردار کے حساب سے جزا یا سزا دی جائے گی۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔

وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ : ان کو ان کے اعمال پورے کر دیے جائیں گے، یعنی ان کو ان کے اعمال بغیر کمی بیشی کے پورے کر کے دے دیے جائیں گے۔ خود اعمال پورے کر کے دینے کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ انسانی اعمال پر اللہ تعالیٰ جزا اور سزا مرتب نہیں کرے گا، بلکہ خود اعمال جزا اور سزا بن کر سامنے آئیں گے، لیکن آیت سے عام مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ چنانچہ ہم نے ترجمے میں یہی عام مفہوم اختیار کیا ہے۔ تاہم ہم نے پہلے بھی اس نظریے کا ذکر کیا ہے: انسانی عمل ایک مرتبہ وجود میں آتا ہے۔ اس کو دوام ملتا ہے اور انرجی کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ عین ممکن ہے قیامت کے دن انسان کو اس کے عمل کا سامنا کرنا پڑے۔ یعنی خود عمل جزا و سزا بن جائے، جیسا کہ اس آیت کا ظاہری معنی ہے۔