اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجۡتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَہُمۡ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡیَاہُمۡ وَ مَمَاتُہُمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ﴿٪۲۱﴾

۲۱۔ برائی کا ارتکاب کرنے والے کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو ایک جیسا بنائیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ برا فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

21۔ اگر ظالم و مظلوم، خیر و شر اور نیک و بد کا ایک جیسا انجام ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات پر اقدار کی حکمرانی نہیں اور جہاں اقدار کے لیے کوئی جگہ نہ ہو، وہ کائنات عبث اور بے معنی کھیل ہو کر رہ جائے گی۔

وَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق خلق کیا ہے تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ مجھے بتلاؤ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے (اپنے) علم کی بنیاد پر اسے گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے؟ پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟

23۔خواہش نفس کو معبود بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کردار شریعت کی بجائے خواہشات کے تابع ہو اور جہاں شریعت اور خواہش میں تصادم ہو، وہاں اپنی خواہش کو مقدم کرے۔

وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ : اس جملے کا دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے۔ اللہ نے (اس گمراہ کے) علم کی بنیاد پر اسے گمراہ کر دیا۔ چنانچہ وہ جان بوجھ کر اللہ کی جگہ اپنی خواہشات کی پرستش کرتا تھا۔

وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ اللہ کی طرف سے گمراہ کرنے، مہر لگانے کا کیا مطلب ہے؟ ہم نے مکرر اس بات کی وضاحت کی ہے: کوئی انسان جب قابل ہدایت نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب ہدایت کا سرچشمہ اس سے ہاتھ اٹھا لے تو فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ اللہ کے بعد اسے کون ہدایت دے گا۔

وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور وہ کہتے ہیں: زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے (جس میں) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔

24۔ جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ زندگی کسی نظام کے تحت نہیں چل رہی کہ کسی خدا کی طرف سے ہم آئے ہوں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہو، بلکہ اس زندگی کا خاتمہ گردش ایام کے تحت ہوتا ہے، پھر لوگ نیست و نابود ہو جاتے ہیں اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ ان کے پاس اس نظریہ کو اپنانے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی، جبکہ دلیل کے بغیر نہ کوئی نظریہ اپنایا جا سکتا ہے، نہ اسے رد کیا جا سکتا ہے اور علم ہی دلیل ہے۔ علم کے سوا ظن و گمان کسی مؤقف کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔ ان دہریوں کے پاس علم یقینا نہیں ہے، کیونکہ یہ کہنا کہ اس زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے، پوری کائنات کے بارے میں مکمل علم پر موقوف ہے کہ وہ یہ کہیں: ہم نے پوری کائنات کو ابتدا سے انتہا تک چھان مارا، لیکن کہیں بھی دوسری زندگی کی علامت نظر نہیں آئی، لہٰذا دوسری زندگی نہیں ہے۔ اس طرح کے علم کا دعویٰ وہ نہیں کر سکتے، لہٰذا یہ مؤقف اختیار نہیں کر سکتے کہ دوسری زندگی نہیں ہے۔

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا کَانَ حُجَّتَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور جب ان کے سامنے ہماری آیات پوری وضاحت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں تو ان کی حجت صرف یہی ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر کے) لے آؤ۔

قُلِ اللّٰہُ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یَجۡمَعُکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ کہدیجئے: اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مار ڈالتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جس میں کوئی شبہ نہیں جمع کرے گا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یَوۡمَئِذٍ یَّخۡسَرُ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور جس دن قیامت برپا ہو گی اس روز اہل باطل خسارے میں پڑ جائیں گے۔

27۔ اگر بفرض محال قیامت کی کوئی حقیقت نہ ہو تو اس کے قائل لوگوں کے لیے کل کوئی ندامت یا کوئی خسارہ نہیں ہو گا، لیکن اگر قیامت کا دن ثابت ہوا تو اس دن باطل پرست لوگ ہی خسارے میں ہوں گے۔

وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۟ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آپ ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھیں گے اور ہر ایک امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، آج تمہیں ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ہو۔

28۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کے دو نامہ اعمال ہوں گے: ایک انفرادی نامہ عمل اور ایک اجتماعی نامہ عمل۔ یعنی ان اعمال کا جدا حساب ہو گا جن کے ارتکاب میں ساری قوم ملوث ہے۔ جرم تو ایک یزید سے سرزد ہوتا ہے، لیکن ایک قوم ایسی ہے جو اس عمل پر خوش ہے۔ خود کش حملوں سے خون مسلم کی ارزانی چند لوگ کرتے ہیں، لیکن جو لوگ فتویٰ دیتے اور ان کی پشت پر ہوتے ہیں یا اس عمل پر خوش ہوتے ہیں، وہ سب اس جرم میں شامل ہیں۔ یہ جرم اس امت کے نامہ عمل میں درج ہو گا۔ جیسا کہ ہم حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں: لَعَنَ اللہُ اُمَّۃً سَمِعَتْ بِذَلِکَ فَرَضِیَتْ بِہَ ۔ (التہذیب6: 113) وہ قوم بھی رحمت خدا سے دور ہو جس نے آپ کے قتل کی خبر سنی اور خوش ہوئی۔ چنانچہ ہر امت کی ایک جدا سرنوشت ہے۔ مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَ مَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ ۔ (مومنون:43) کوئی امت اپنے مقررہ وقت سے آگے جا سکتی ہے نہ وہ پیچھے رہ سکتی ہے۔ قیامت کے روز ہر امت سے ایک گواہ بھی اٹھایا جائے گا۔ (نحل : 89)

ہٰذَا کِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡکُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّا کُنَّا نَسۡتَنۡسِخُ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ ہماری یہ کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کر دے گی جو تم کرتے تھے، ہم اسے لکھواتے رہتے تھے۔

29۔ اس کائنات کا حقیقی رازداں ہی جانتا ہے کہ اس نسخہ برداری کی کیا صورت ہو گی۔ ممکن ہے کہ اس عمل کے وقت انسانی جسم میں موجود ہر ذرے سے یہ کام لیا جائے۔ اس کی بہت سی صورتیں اب تک انسان کے علم میں بھی آ چکی ہیں۔ بہرحال یہ نسخہ برداری اس قدر دقیق ہو گی کہ دوسری جگہ فرمایا: لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا (کہف : 49) کوئی بھی چھوٹا اور بڑا عمل ایسا نہ ہو گا جو اس میں ثبت نہ ہو۔

فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُدۡخِلُہُمۡ رَبُّہُمۡ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِیۡنُ﴿۳۰﴾

۳۰۔ پھر جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یہی تو نمایاں کامیابی ہے۔