دلائل معاد


وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور وہ کہتے ہیں: زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے (جس میں) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔

24۔ جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ زندگی کسی نظام کے تحت نہیں چل رہی کہ کسی خدا کی طرف سے ہم آئے ہوں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہو، بلکہ اس زندگی کا خاتمہ گردش ایام کے تحت ہوتا ہے، پھر لوگ نیست و نابود ہو جاتے ہیں اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ ان کے پاس اس نظریہ کو اپنانے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی، جبکہ دلیل کے بغیر نہ کوئی نظریہ اپنایا جا سکتا ہے، نہ اسے رد کیا جا سکتا ہے اور علم ہی دلیل ہے۔ علم کے سوا ظن و گمان کسی مؤقف کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔ ان دہریوں کے پاس علم یقینا نہیں ہے، کیونکہ یہ کہنا کہ اس زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے، پوری کائنات کے بارے میں مکمل علم پر موقوف ہے کہ وہ یہ کہیں: ہم نے پوری کائنات کو ابتدا سے انتہا تک چھان مارا، لیکن کہیں بھی دوسری زندگی کی علامت نظر نہیں آئی، لہٰذا دوسری زندگی نہیں ہے۔ اس طرح کے علم کا دعویٰ وہ نہیں کر سکتے، لہٰذا یہ مؤقف اختیار نہیں کر سکتے کہ دوسری زندگی نہیں ہے۔

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾

۲۷۔ کیا تمہارا خلق کرنا زیادہ مشکل ہے یا اس آسمان کا جسے اس نے بنایا ہے؟

27۔ تم کہتے ہو: ہماری بوسیدہ ہڈیوں کو اللہ کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا؟ کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ عالم بالا کی موجودات کا بنانا اس انسان کو دوبارہ بنانے سے زیادہ مشکل اور سنگین کام تھا ؟ لیکن اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔