آیت 28
 

وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۟ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آپ ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھیں گے اور ہر ایک امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، آج تمہیں ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ہو۔

تشریح کلمات

جَاثِیَۃً:

( ج ث و ) جثوّاً گھٹنوں کے بل بیٹھنا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً: آپ دیکھیں گے ہر امت قیامت کے دن اپنے حساب کے لیے گھٹنوں کے بل انتظار میں ہو گی جس طرح ہر شخص انفرادی طور پر حساب یا عدل خواہی کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دو زانو ہو گا اسی طرح ہر امت بھی۔

صحیح بخاری کتاب المغازی میں حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان مذکور ہے:

انا اول من یجثو بین یدی الرحمن للخصومۃ یوم القیامۃ۔

قیامت کے دن میں پہلا شخص ہوں گا جو اللہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے دو زانو ہو گا۔

۲۔ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا: ہر امت اپنے نامۂ عمل کی طرف بلائی جائے گی۔

اس سے معلوم ہوا انسان کے دو نامہ اعمال ہوں گے ایک انفرادی نامۂ عمل اور ایک اجتماعی نامہ عمل۔ یعنی ان اعمال کا جدا حساب ہو گا جن کے ارتکاب میں ساری قوم ملوث ہو گی۔ جرم تو ایک یزید سے سرزد ہوتا ہے لیکن ایک قوم ایسی ہے جو اس عمل پر خوش ہے۔ خودکش حملوں سے خون مسلم کی ارزانی چند لوگ کرتے ہیں (گزشتہ چند سالوں سے آج ۲۰۱۰ تک خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں مسجدوں کے نمازی ہوں یا عزاداری میں شریک لوگ یا کاروباری لوگ ہوں، سب بے گناہوں کا قتل عام جاری ہے جن میں بے گناہ بچے اور عورتیں شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔) لیکن جو لوگ فتویٰ دیتے اور ان کی پشت پر ہوتے ہیں وہ سب اس جرم میں شامل ہیں۔ یہ جرم اس امت اور اس قوم کے نامہ اعمال میں شامل ہو گا۔ جیسا کہ ہم حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں:

لَعَنَ اللہُ اُمَّۃً سَمِعَتْ بِذَلِکَ فَرَضِیَتْ بِہِ۔۔۔۔ ( تھذیب الاحکام ۶: ۱۱۳)

اس قوم پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے آپ کے قتل کی خبر سنی اور خوش ہوئی۔

جیسا کہ فرمایا:

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (۸ انفال:۲۵)

اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میں سے صرف ظلم کرنے والے ہی نہیں (سب) آئیں گے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

جیسے امر بمعروف اور نہی از منکر ترک کرنے کی صورت میں برے نتائج کی زدمیں سب لوگ آ جاتے ہیں۔ جیسا کہ روایت ہے:

لَتَامُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لَتَنْھَنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْ لَیُسْتَعْمَلَنَّ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ فَیَدْعُو خِیَارُکُمْ فَلَا یُسْتَجَابُ لَہُمْ۔ (الکافی۵: ۵۶)

تم امربمعروف اور نہی از منکر کرو، ورنہ برے لوگ تمہارے حاکم بنیں گے۔ پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے مگر قبول نہ ہو گی۔

اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ہر امت کی ایک جدا سرنوشت ہے:

مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَ مَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ (۲۳ مومنون:۴۳)

کوئی امت اپنے مقررہ وقت سے آگے جا سکتی ہے نہ وہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

جس طرح ہر امت کا جدا نامہ اعمال ہو گا اسی طرح ہر امت کے لیے جدا ایک گواہ بھی ہو گا۔

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ۔۔۔۔۔۔ (۱۶ نحل:۸۹)

اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے۔

۳۔ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ: ہر قوم اس کے نامہ اعمال کی طرف اس لیے بلائی جائے گی کہ اس کے مطابق سزا جزا دی جائے۔ آیت کے اس جملے سے واضح ہوتا ہے کِتٰبِہَا میں کتاب سے مراد نامۂ اعمال ہے۔ چنانچہ اگلی آیت میں صراحت ہے کہ مراد نامۂ اعمال ہے۔


آیت 28