ہٰذَا ہُدًی ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَہُمۡ عَذَابٌ مِّنۡ رِّجۡزٍ اَلِیۡمٌ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ یہ (قرآن) ہدایت ہے اور جو لوگ اپنے رب کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب کی سخت سزا ہو گی۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَکُمُ الۡبَحۡرَ لِتَجۡرِیَ الۡفُلۡکُ فِیۡہِ بِاَمۡرِہٖ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿ۚ۱۲﴾

۱۲۔ اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکر کرو۔

وَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مِّنۡہُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَغۡفِرُوۡا لِلَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ اَیَّامَ اللّٰہِ لِیَجۡزِیَ قَوۡمًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ ایمان والوں سے کہدیجئے: جو لوگ ایام اللہ پر عقیدہ نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس قوم کو اس کے کیے کا بدلہ دے۔

14۔ ایام اللہ سے مراد وہ دن ہوتے ہیں جن میں مجرم قوموں کو ملنے والی سزائیں آئندہ نسلوں کو یاد رہتی ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: وَذَكِّرْہُمْ بِاَيّٰىمِ اللہِ ۔

یہ آیت مکی ہے۔ مکہ میں مشرکین مسلمان کا تمسخر اڑاتے اور آئے دن مسلمانوں کی اہانت کرتے تھے اور ساتھ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بھی اہانت کرتے تھے اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے، جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ حکم ہوا کہ مومنین سے کہ دے کہ وہ مشرکین کی ان اہانتوں سے درگزر کریں اور ان کو اللہ پر چھوڑ دیں، تاکہ اللہ ان سے ان کے کیے کا بدلہ لے۔

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ۫ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۱۶﴾

۱۶۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکمت اور نبوت دی اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے انہیں اہل عالم پر فضیلت دی۔

16۔ یعنی اس زمانے کی قوموں میں سے بنی اسرائیل ہی کو فضیلت دی اور اس بار امانت اسی قوم کے کندھوں پر رکھا۔

وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ۙ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور ہم نے انہیں امر (دین) کے بارے میں واضح دلائل دیے تو انہوں نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد آپس کی ضد میں آ کر اختلاف کیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ فرمائے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔

17۔ بنی اسرائیل کو واضح دلائل دیے۔ مِّنَ الۡاَمۡرِ سے مراد یا تو دین ہے، یعنی دین کے بارے میں دلائل دیے یا اس سے مراد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔ ممکن ہے مِّنَ الۡاَمۡرِ سے مراد دلائل و معجزات عالم امری، یعنی اللہ کے حتمی فیصلے، یعنی کن فکانی ہو۔ و العلم عند اللہ۔

اخۡتَلَفُوۡۤا : آپس کی ضد میں آ کر اختلاف کیا۔ مختلف تعصب شعار لوگوں کی تحریر و تقریر سے معلوم ہوتا ہے، اکثر اختلافات کا اصل سرچشمہ ایک دوسرے کی ضد ہے۔

ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ پھر ہم نے آپ کو امر (دین) کے ایک آئین پر قائم کیا، لہٰذا آپ اسی پر چلتے رہیں اور نادانوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں۔

18۔ بنی اسرائیل کی نا اہلی ثابت ہونے کے بعد اب یہ بار امانت آپ کے کندھوں پر ہے۔ بنی اسرائیل نے شریعت الٰہیہ کو نادانوں کی خواہشات کی نذر کیا تھا، آپ ایسا نہ کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شریعت الٰہیہ کو سب سے زیادہ ناخواندہ لوگوں کی طرف سے خطرہ لاحق رہتا ہے۔

اِنَّہُمۡ لَنۡ یُّغۡنُوۡا عَنۡکَ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ۚ وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ بلاشبہ یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں آپ کے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے اور ظالم تو یقینا ایک دوسرے کے حامی ہوتے ہیں اور اللہ پرہیزگاروں کا حامی ہے۔

ہٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بصیرت افروز اور یقین رکھنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔