آیت 25
 

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا کَانَ حُجَّتَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتُوۡا بِاٰبَآئِنَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور جب ان کے سامنے ہماری آیات پوری وضاحت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں تو ان کی حجت صرف یہی ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر کے) لے آؤ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ: جب منکرینِ معاد کو دوسری زندگی پر دلالت کرنے والی واضح دلیلیں اور حیات بعد الموت کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور اس دنیا میں بھی وہ طبیعاتی عالم میں اموات کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کو دکھایا جاتا ہے تو ان پر توجہ دینے کی جگہ وہ یہ مطالبہ پیش کرتے ہیں: اگر اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ہے تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کر لاؤ۔

حالانکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں معاد کا تصور یہ نہیں تھا کہ اسی دنیا میں، جو دار عمل اور دار تکلیف ہے، دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں تصور معاد یہ ہے کہ اس عالم کا خاتمہ ہو جائے گا، یہ نظام درہم برہم ہو جائے گا، عالم آخرت کے عنوان سے ایک جدید نظام وجود میں آئے گا۔ اس جدید نظام کے تحت لوگوں کو زندہ کیا جائے گا۔ ذیل کی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔


آیت 25