وَ تَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً ۟ کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آپ ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھیں گے اور ہر ایک امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، آج تمہیں ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے ہو۔

28۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کے دو نامہ اعمال ہوں گے: ایک انفرادی نامہ عمل اور ایک اجتماعی نامہ عمل۔ یعنی ان اعمال کا جدا حساب ہو گا جن کے ارتکاب میں ساری قوم ملوث ہے۔ جرم تو ایک یزید سے سرزد ہوتا ہے، لیکن ایک قوم ایسی ہے جو اس عمل پر خوش ہے۔ خود کش حملوں سے خون مسلم کی ارزانی چند لوگ کرتے ہیں، لیکن جو لوگ فتویٰ دیتے اور ان کی پشت پر ہوتے ہیں یا اس عمل پر خوش ہوتے ہیں، وہ سب اس جرم میں شامل ہیں۔ یہ جرم اس امت کے نامہ عمل میں درج ہو گا۔ جیسا کہ ہم حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں: لَعَنَ اللہُ اُمَّۃً سَمِعَتْ بِذَلِکَ فَرَضِیَتْ بِہَ ۔ (التہذیب6: 113) وہ قوم بھی رحمت خدا سے دور ہو جس نے آپ کے قتل کی خبر سنی اور خوش ہوئی۔ چنانچہ ہر امت کی ایک جدا سرنوشت ہے۔ مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَ مَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ ۔ (مومنون:43) کوئی امت اپنے مقررہ وقت سے آگے جا سکتی ہے نہ وہ پیچھے رہ سکتی ہے۔ قیامت کے روز ہر امت سے ایک گواہ بھی اٹھایا جائے گا۔ (نحل : 89)