وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۟ اَفَلَمۡ تَکُنۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَاسۡتَکۡبَرۡتُمۡ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور جنہوں نے کفر کیا (ان سے کہا جائے گا) کیا میری آیات تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں؟ پھر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم قوم تھے۔

وَ اِذَا قِیۡلَ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ السَّاعَۃُ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا قُلۡتُمۡ مَّا نَدۡرِیۡ مَا السَّاعَۃُ ۙ اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جب (تم سے) کہا جاتا تھا کہ یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے: ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے، ہمیں گمان سا ہوتا ہے اور ہم یقین کرنے والے نہیں ہیں۔

32۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی بہ نسبت اس پر شک کرنے والے اگرچہ منطقی طرز فکر کے نزدیک ہیں، تاہم وہ یقینی دلائل و شواہد کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس لیے نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہو گا۔-

وَ بَدَا لَہُمۡ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوۡا وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور ان پر اپنے اعمال کی برائیاں ظاہر ہو گئیں اور جس چیز کی وہ ہنسی اڑاتے تھے اس نے انہیں گھیر لیا۔

33۔مجرم جب جرم کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو اس کو اپنے جرم کا اندازہ نہیں ہوتا، لیکن جب مکافات عمل کا وقت آتا ہے تو اس وقت اس کی برائی کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ کس درجے کا جرم تھا۔

وَ قِیۡلَ الۡیَوۡمَ نَنۡسٰکُمۡ کَمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا وَ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور کہا جائے گا: آج ہم تمہیں اسی طرح بھلا دیتے ہیں جس طرح تم نے اپنے اس دن کے آنے کو بھلا دیا تھا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں ہے۔

34۔ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے بھلا دینے کا مطلب یہ ہے : اللہ ان کو قیامت کی ہولناک حالت پر چھوڑ دے گا، جیسا کہ ان لوگوں نے روز قیامت کے بارے میں ہر ایمان و عمل کو ترک کیا تھا۔

ذٰلِکُمۡ بِاَنَّکُمُ اتَّخَذۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّ غَرَّتۡکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ۚ فَالۡیَوۡمَ لَا یُخۡرَجُوۡنَ مِنۡہَا وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ یہ (سزا) اس لیے ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کو مذاق بنایا تھا اور دنیاوی زندگی نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا، پس آج کے دن نہ تو یہ اس (جہنم) سے نکالے جائیں گے اور نہ ان کی معذرت قبول کی جائے گی۔

35۔ جہنم ان کا ٹھکانا اس لیے بنا کہ وہ آیات الہٰی کا مذاق اڑاتے تھے۔ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ آج وہ آتش جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کا عذر قبول نہ ہو گا۔

یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ ، الاستعتاب عذر طلبی کو کہتے ہیں۔

فَلِلّٰہِ الۡحَمۡدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبِّ الۡاَرۡضِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ پس ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں کا رب اور زمین کا رب ہے، عالمین کا رب ہے۔

36۔ اس آیت میں مشرکین کی رد ہے کہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور نہیں ہے، بلکہ وہی اللہ آسمانوں اور زمین، پھر عالمین کا رب ہے۔

وَ لَہُ الۡکِبۡرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔ اور آسمانوں اور زمین میں بڑائی اسی کے لیے ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

37۔ الۡکِبۡرِیَآءُ : راغب کے مطابق الترفع عن الانقیاد ، کسی کی فرمانبرداری سے بالاتر ہونا ہے۔ اس کی کبریائی اور عظمت کے ساتھ نہ آسمانوں میں کوئی شریک ہے، نہ زمین میں۔ یہ کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔