آیت 24
 

وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور وہ کہتے ہیں: زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے (جس میں) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں ہے، وہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ بظاہر یہ منکرین معاد کا قول ہے، منکرین خدا کا نہیں۔ منکرین معاد زندگی کو اسی دنیوی زندگی میں منحصر سمجھتے تھے۔

۲۔ نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا: پرانی نسلیں مر جاتی ہیں اور نئی نسل پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کی موت و حیات پر مشتمل دنیا چل رہی ہے۔ لہٰذا موت و حیات کا یہی سلسلہ ہے جو ہم اس دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ زندہ ہو کر دنیا میں آتے ہیں۔

۳۔ وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ: ہمیں گردش ایام نابودکرتی ہے۔ یہ زمانہ ہے جس کے ہاتھوں ہر جدید پرانی ہوجاتی ہے۔ ہر طراوت و تازگی میں تعفن آتا ہے۔ پھر ہر زندہ اسی زمانے کی زد میں آ کر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔

۴۔ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ: ان کے پاس اس نظریے کو اپنانے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی جب کہ دلیل کے بغیر نہ کوئی نظریہ اپنایا جا سکتا ہے، نہ اسے رد کیا جا سکتا ہے اور دلیل صرف علم ہے۔ علم کے سوا ظن و گمان کسی موقف کے لیے دلیل نہیں بن سکتا۔

ان مشرکین کے پاس کوئی علم یقینا نہیں ہے کیونکہ یہ کہنا کہ اس زندگی کے سوا کوئی زندگی نہیں ہے، پوری کائنات کے بارے میں مکمل علم پر موقوف ہے کہ وہ یہ کہیں: ہم نے پوری کائنات کو ابتدا سے انتہا تک چھان مارا لیکن کہیں بھی دوسری زندگی کی علامت نظر نہیں آئی۔ لہٰذا دوسری زندگی نہیں ہے۔ اس قسم کے علم کا دعویٰ وہ نہیں کر سکتے لہٰذا یہ موقف اختیار نہیں کر سکتے کہ دوسری زندگی نہیں ہے۔

اکثر بت پرستوں کا عقیدہ اگرچہ تناسخ پر مبنی ہے تاہم تناسخ میں بھی یہ بات ہو سکتی ہے: ہمارے اس وجود کو گردش ایام ختم کر دیتی ہے۔


آیت 24