وَ الَّذِیۡ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۢ بِقَدَرٍ ۚ فَاَنۡشَرۡنَا بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا ۚ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور جس نے آسمان سے پانی ایک مقدار میں نازل کیا جس سے ہم نے مردہ شہر کو زندہ کر دیا، تم بھی اسی طرح (قبروں سے) نکالے جاؤ گے۔

11۔ بارش کا پانی زمین کے جن مختلف علاقوں کے لیے خاص مقدار میں تقسیم کیا گیا ہے، اسے کوئی طاقت نہیں بدل سکتی۔ وہی طاقت جس نے زمین کو روئیدگی دی، وہی تمہیں اسی زمین سے دوبارہ اٹھائے گی۔

وَ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ کُلَّہَا وَ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡفُلۡکِ وَ الۡاَنۡعَامِ مَا تَرۡکَبُوۡنَ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کیے اور تمہارے لیے کشتیاں اور جانور آمادہ کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو،

12۔ اس آیت میں الۡاَزۡوَاجَ سے مراد بعض کے نزدیک مختلف اقسام ہیں، جیسے انسان، حیوان، درخت وغیرہ۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد اللہ کے علاوہ تمام اقسام کے جوڑے ہیں، جیسے اوپر نیچے، دائیں بائیں، سفید سیاہ، مرد عورت۔

لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ اِذَا اسۡتَوَیۡتُمۡ عَلَیۡہِ وَ تَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ تاکہ تم ان کی پشت پر بیٹھو پھر جب تم اس پر درست بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی نعمت یاد کرو اور کہو: پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا ورنہ ہم اسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے۔

13۔ 14 دوران سفر تین چیزوں کا مومن کی نظر میں رہنا ضروری ہے: اولاً اس رب کا شکر جس نے تمام موجودات میں صرف انسان کے لیے دیگر اشیاء کو مسخر کیا۔ ثانیاً: اس آخری سفر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جس میں اس نے اپنے رب کی بارگاہ میں جوابدہی کے لیے حاضری دینا ہے۔ ثالثاً جب سوار ہو تو دو چیزوں کا ذکر کرنا چاہیے: ایک اللہ کی نعمتوں کا ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ ۔ دوسرا اللہ کی تسبیح سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا ۔

وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنۡ عِبَادِہٖ جُزۡءًا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾

۱۵۔ اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے (کچھ کو) اللہ کا جز (اولاد) بنا دیا، یہ انسان یقینا کھلا ناشکرا ہے۔

15۔ بندوں کو اللہ کا جز قرار دینے سے مراد اولاد ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیا، کیونکہ اولاد باپ کا حصہ اور اس کے وجود کا ایک جز ہوتی ہے، جو اس سے الگ ہو کر وجود میں آتی ہے۔

اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخۡلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصۡفٰکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ کیا اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے (اپنے لیے) بیٹیاں بنا لیں اور تمہیں بیٹوں کے لیے منتخب کیا؟

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ حالانکہ جب ان میں سے کسی ایک کو بھی اس (بیٹی) کا مژدہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدائے رحمن کی طرف منسوب کی تھی تو اندر ہی اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

17۔ مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان بیٹیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وہ عورتوں کی شکل کے بت بناتے تھے اور پھر اولاد میں وہ بیٹیاں، جنہیں وہ اپنے لیے عار و ننگ سمجھتے تھے، اللہ کے حصے میں رکھتے تھے اور جن بیٹوں پر یہ لوگ فخر کرتے انہیں وہ اپنے حصے میں رکھتے تھے۔

اَوَ مَنۡ یُّنَشَّؤُا فِی الۡحِلۡیَۃِ وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ﴿۱۸﴾

۱۸۔ کیا وہ جو زیور (ناز و نعم) میں پلتی ہے اور جھگڑے میں (اپنا) مدعا واضح نہیں کر سکتی (اللہ کے حصے میں ہے)؟

18۔ یعنی جو اولادیں نرم و نازک اور تمہارے زعم میں تمہاری زندگی پر بوجھ ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں بات تک نہیں کر سکتیں اور زیوروں میں پلتی ہیں، ان کو اللہ کے حصے میں ڈال دیں۔ یہاں سے عورتوں کے لیے سونے کے زیورات استعمال کرنے کا جواز بھی معلوم ہوا۔

وَ جَعَلُوا الۡمَلٰٓئِکَۃَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عِبٰدُ الرَّحۡمٰنِ اِنَاثًا ؕ اَشَہِدُوۡا خَلۡقَہُمۡ ؕ سَتُکۡتَبُ شَہَادَتُہُمۡ وَ یُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور انہوں نے فرشتوں کو جو اللہ کے بندے ہیں عورتیں قرار دے دیا، کیا انہوں نے ان کو خلق ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ عنقریب ان کی گواہی لکھی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا۔

وَ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ ؕ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ٭ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم ان (فرشتوں) کی پوجا نہ کرتے، انہیں اس کا کوئی علم نہیں یہ تو صرف اندازے لگاتے ہیں۔

20۔ یہی نظریہ جبر ہے کہ کسی چیز کے وجود کو اس کے جواز کے لیے دلیل بنا کر پیش کیا جائے۔ ان کا استدلال اس طرح ہے: اگر اللہ کا ارادہ اور منشا یہ تھی کہ ہم بتوں کی پوجا نہ کریں تو ہمارے لیے بتوں کی پوجا کرنا ممکن ہی نہ ہوتا، کیونکہ اللہ کے ارادے کو کوئی رد کر نہیں سکتا، لیکن ہم بتوں کی پوجا کر رہے ہیں، اس سے ثابت ہوا اللہ بتوں کے پوجنے کو چاہتا ہے۔ اس قسم کا استدلال تقدیر کا ایک غلط مفہوم لینے والے بھی کرتے ہیں: تقدیر میں ایسا ہی تھا۔ ہم کیسے تقدیر کے خلاف کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس استدلال میں اللہ کے ارادہ تکوینی اور تشریعی میں خلط کیا ہے۔ اللہ جب خود کسی کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ لیکن اگر اللہ انسان سے چاہے کہ وہ اس عمل کو بجا لائے تو وہ مخلوق اس کو بجا لاتی بھی ہے، نہیں بھی لاتی۔ اس ارادے کو تشریعی کہتے ہیں۔ اللہ نے انسان سے چاہا کہ بت پرستی نہ کرے، لیکن انسان بت پرستی کرتا بھی ہے، نہیں بھی کرتا۔