بت پرستی کی موہوم دلیل


وَ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ ؕ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ٭ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم ان (فرشتوں) کی پوجا نہ کرتے، انہیں اس کا کوئی علم نہیں یہ تو صرف اندازے لگاتے ہیں۔

20۔ یہی نظریہ جبر ہے کہ کسی چیز کے وجود کو اس کے جواز کے لیے دلیل بنا کر پیش کیا جائے۔ ان کا استدلال اس طرح ہے: اگر اللہ کا ارادہ اور منشا یہ تھی کہ ہم بتوں کی پوجا نہ کریں تو ہمارے لیے بتوں کی پوجا کرنا ممکن ہی نہ ہوتا، کیونکہ اللہ کے ارادے کو کوئی رد کر نہیں سکتا، لیکن ہم بتوں کی پوجا کر رہے ہیں، اس سے ثابت ہوا اللہ بتوں کے پوجنے کو چاہتا ہے۔ اس قسم کا استدلال تقدیر کا ایک غلط مفہوم لینے والے بھی کرتے ہیں: تقدیر میں ایسا ہی تھا۔ ہم کیسے تقدیر کے خلاف کر سکتے ہیں۔ جب کہ اس استدلال میں اللہ کے ارادہ تکوینی اور تشریعی میں خلط کیا ہے۔ اللہ جب خود کسی کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ لیکن اگر اللہ انسان سے چاہے کہ وہ اس عمل کو بجا لائے تو وہ مخلوق اس کو بجا لاتی بھی ہے، نہیں بھی لاتی۔ اس ارادے کو تشریعی کہتے ہیں۔ اللہ نے انسان سے چاہا کہ بت پرستی نہ کرے، لیکن انسان بت پرستی کرتا بھی ہے، نہیں بھی کرتا۔