آیات 13 - 14
 

لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ اِذَا اسۡتَوَیۡتُمۡ عَلَیۡہِ وَ تَقُوۡلُوۡا سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ تاکہ تم ان کی پشت پر بیٹھو پھر جب تم اس پر درست بیٹھ جاؤ تو اپنے رب کی نعمت یاد کرو اور کہو: پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا ورنہ ہم اسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے۔

وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ لِتَسۡتَوٗا عَلٰی ظُہُوۡرِہٖ: ان سواریوں کی غرض تخلیق بیان فرمائی: کشتی کو پانی پر تیرنے کی صلاحیت دی اور حیوانات کی پشت کو اس طرح خلق فرمایا کہ انسان کی سواری کے لیے تسخیر ہو سکے۔

۲۔ ثُمَّ تَذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ رَبِّکُمۡ: سواریوں کی پشت پر بیٹھ کر اپنے رب کی اس نعمت کو یاد کرو جس نے تمہاری سہولت کے لیے اس سواری کو مسخر کیا۔ ورنہ لَّمۡ تَکُوۡنُوۡا بٰلِغِیۡہِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ۔۔۔ (سورہ نحل:۷) تم اپنی منزل تک جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔

۳۔ وَ تَقُوۡلُوۡا: اس کے بعد یہ دعائیہ جملے پڑھو جس میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کے ساتھ شکر نعمت کا اظہار ہو۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

یہ کہو: الْحَمْدُ للّٰہ الَّذِی ھَدَانَا لِلْاِسْلَامِ وَ عَلَّمَنَا الْقُرْآنَ وَ مَنَّ عَلَیْنَا بِمُُحَمَّدٍ ص پھر پڑھو: سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَہٗ مُقْرِنِيْنَۙ وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۔ ( الکافی ۴: ۲۸۴)

اس روایت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شکر نعمت ادا کرتے ہوئے سُبۡحٰنَ کے ساتھ تنزیہ ہونی چاہیے۔

۴۔ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ: انسان دنیا میں جو سفر کرتا ہے اس میں آخرت کے طویل سفر کو یاد رکھنا چاہیے جسے ہر انسان نے طے کرنا ہے۔ وہ طویل سفر دنیا سے کوچ کر کے اللہ کی بارگاہ میں جانے والا سفر ہے۔

اہم نکات

۱۔ نظام کائنات کی تدبیر میں زوجیت کا بڑا دخل ہے۔

۲۔ کشتیوں کی روانی اور حیوانات کی نقل و حمل میں تدبیر حیات کا اہم کردار ہے۔


آیات 13 - 14