اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ فَہُمۡ بِہٖ مُسۡتَمۡسِکُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ کیا ہم نے انہیں اس (قرآن) سے پہلے کوئی دستاویز دی ہے جس سے اب یہ تمسک کرتے ہیں ؟

بَلۡ قَالُوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ (نہیں) بلکہ یہ کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔

وَ کَذٰلِکَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّقۡتَدُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

23۔ کیونکہ اسلام کے عدل و انصاف سے وہ سرمایہ دار ہی متاثر ہوتے ہیں جو ظلم و نا انصافی سے دولت جمع کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مال و دولت سے انسان کی خواہشات بیدار ہو جاتی ہیں جن پر ہر قسم کی اخلاقی پابندی ان خواہش پرستوں کے لیے نا قابل تحمل ہوتی ہے۔

قٰلَ اَوَ لَوۡ جِئۡتُکُمۡ بِاَہۡدٰی مِمَّا وَجَدۡتُّمۡ عَلَیۡہِ اٰبَآءَکُمۡ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ (ان کے نبی نے) کہا: خواہ میں اس سے بہتر ہدایت لے کر آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟ وہ کہنے لگے: جو کچھ دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

فَانۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ﴿٪۲۵﴾ ۞ؒ

۲۵۔ چنانچہ ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لو تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖۤ اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: جنہیں تم پوجتے ہو ان سے میں یقینا بیزار ہوں۔

اِلَّا الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ فَاِنَّہٗ سَیَہۡدِیۡنِ﴿۲۷﴾

۲۷۔ سوائے اپنے رب کے جس نے مجھے پیدا کیا، یقینا وہی مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا۔

وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اللہ نے اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔

28۔ وَ جَعَلَہَا میں ضمیر بَرَآءَۃٌ کی طرف جاتی ہے، جو اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ میں مذکور ہے۔ یعنی برائت از مشرکین کی تحریک جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شروع فرمائی ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم میں کلمہ باقیہ قرار دے کر اولاد ابراہیم کے ذریعے ابدیت بخشی ہے۔ چنانچہ جب برائت از مشرکین کی یہ تحریک فرزند ابراہیم علیہ السلام حضرت خاتم الانبیاء صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دست مبارک سے ایک ابدی مرحلے میں داخل ہو گئی، حضرت خلیل علیہ السلام کے ایک بت شکن فرزند حضرت علی علیہ السلام نے 9ھ کو حج اکبر کے موقع پر برائت از مشرکین کا اعلان فرمایا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ توبہ آیت 3) آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولاد ابراہیم میں برائت از مشرکین یعنی توحید کی یہ تحریک قیامت تک باقی رہے گی۔

لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ : تاکہ لوگ شرک چھوڑ کر توحید کی طرف، غیر اللہ کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ آج روئے زمین پر جتنے بھی توحید پرست لوگ ہیں، وہ ابراہیم علیہ السلام اور اس کی آل کی اس تحریک کا نتیجہ ہیں۔

بَلۡ مَتَّعۡتُ ہٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی جَآءَہُمُ الۡحَقُّ وَ رَسُوۡلٌ مُّبِیۡنٌ﴿۲۹﴾

۲۹۔ (ان کافروں کو فوری ہلاک نہیں کیا) بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو متاع حیات دی یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور واشگاف بیان کرنے والا رسول آ گیا۔

وَ لَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ وَّ اِنَّا بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ اور جب حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے: یہ تو جادو ہے، ہم اسے نہیں مانتے۔