آیات 20 - 21
 

وَ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ ؕ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ٭ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم ان (فرشتوں) کی پوجا نہ کرتے، انہیں اس کا کوئی علم نہیں یہ تو صرف اندازے لگاتے ہیں۔

اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ فَہُمۡ بِہٖ مُسۡتَمۡسِکُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ کیا ہم نے انہیں اس (قرآن) سے پہلے کوئی دستاویز دی ہے جس سے اب یہ تمسک کرتے ہیں ؟

تفسیر آیات

اور وہ (مشرکین) کہتے ہیں اگر خدائے رحمن چاہتا تو ہم ان (فرشتوں) کی پوجا نہ کرتے۔ انہیں اس کا کوئی علم نہیں یہ تو صرف اندازے لگاتے ہیں۔

کیا ہم نے انہیں اس (قرآن) سے پہلے کوئی دستاویز دی ہے جس سے یہ اب تمسک کرتے ہیں؟

۱۔ وَ قَالُوۡا: یہی نظریۂ جبر ہے۔ اللہ کی عبادت کرنا خیراً بھی اللہ کی طرف سے ہے اور بتوں کی پوجا کرنا شراً بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے:

اگر اللہ کی منشاء یہ تھی کہ ہم بتوں کی پوجا نہ کریں تو ہمارے لیے بتوں کی پوجا کرنا ممکن ہی نہ تھا کیونکہ اللہ کے ارادے کو کوئی روک نہیں سکتا لیکن ہم بتوں کی پوجا کر رہے ہیں اس سے ثابت ہوا ہمارا بتوں کی پوجا کرنا اللہ کی منشاء کے مطابق ہے۔

یہی نظریہ جبر ہے جو مسلمانوں کے ایک کلامی مذہب نے اختیار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی عمل، مثلاً ناحق قتل کو اللہ نہ چاہے پھر بھی وہ رونما ہو جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو لازم آتا ہے اللہ کا ارادہ مغلوب اور قاتل کا ارادہ غالب آ جائے۔

ایک مجلس میں نظریہ جبر کا عالم بیٹھا تھا۔ اس میں ایک دوسرا عالم جو نظریۂ جبر کا قائل نہ تھا وارد ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر اس نے جبریہ پر طنز کے طور پر کہا: سبحان من تنزہ عن الفحشآء۔ پاکیزہ ہے وہ ذات جو قتل و زنا جیسے فحشاء سے پاک ہے۔ جبریہ نے جواب میں کہا: پاکیزہ ہے وہ ذات جس کی مملکت میں صرف اسی کی منشاء چلتی ہے۔

نظریۂ جبر والوں کو اس جگہ بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی: ’’اللہ کی مملکت میں صرف اس کی منشاء چلتی ہے۔‘‘ چونکہ یہ بات اللہ کی تکوینی منشاء اور ارادے میں تو درست ہے۔ تشریعی ارادے میں نہیں۔ ان لوگوں کو اللہ کے تکوینی ارادے اور تشریعی ارادے میں خلط ہو گیا ہے۔

تکوینی ارادہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود کوئی عمل انجام دینا چاہے۔

تشریعی ارادہ یہ ہے کہ اللہ یہ چاہے کہ بندہ اپنے اختیار سے یہ عمل انجام دے۔ آگے بندہ اس عمل کو انجام دیتا ہے اور نہیں بھی دیتا۔

صحیح ہے اللہ تعالیٰ خود کسی کام کے انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارادے کے سامنے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔ یہاں اللہ کا کن فیکون نافذ ہے۔

ا ِاِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ اسے ارادہ تکوینی کہتے ہیں۔ اللہ کے تکوینی ارادوں میں سے ایک ارادہ یہ بھی ہے کہ بندے اپنے ارادے کے مالک، خود مختار ہوں۔ اس کے تحت جب اللہ یہ ارادہ فرماتا ہے اس کے بندے اچھے اعمال بجا لائیں اور برے اعمال انجام نہ دیں تو اللہ کے اس ارادے کے مطابق بندے عمل کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی کرتے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو خود مختار رکھا ہے، انہیں اپنے ارادے کا مالک بنایا ہے۔ چنانچہ طاقت اللہ کی طرف سے ہے، اس کا استعمال بندے کی طرف سے ہے۔ اللہ نے بندوں کو اچھا اور برا عمل کرنے کا اختیار دیا ہے لہٰذا اختیار اللہ کی طرف سے ہے، انتخاب بندے کی طرف سے۔ اسی وجہ سے تو بندہ اپنے عمل کا ذمے دار ہے۔ اگر مجبور ہوتا تو جبر کرنے والا ذمے دار ہوتا۔

۲۔ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ: یہ جملہ نہایت قابل توجہ ہے کہ مشرکین کا یہ نظریۂ جبر جہالت پر مبنی ہے۔ انہیں اللہ کی مشیت کا علم نہیں ہے۔ اللہ کے ارادوں کا علم نہیں ہے۔ اللہ کی خوشنودی کا علم نہیں ہے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے:

من قال بالجبر فلا تعطوہ من الزکوۃ شیئا ولا تقبلوا لہ شہادۃ ابداً ان اللہ تعالیٰ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا و لا یحملھا فوق طاقتھا وَ لَا تَکۡسِبُ کُلُّ نَفۡسٍ اِلَّا عَلَیۡہَا ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی۔ (عیون اخبار الرضا ۱: ۱۴۳)

جو شخص جبر کا قائل ہے اسے زکوۃ میں سے کچھ بھی نہ دو، نہ کبھی بھی اس کی گواہی قبول کرو۔ اللہ کسی انسان کو اس کی گنجائش سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ انسان جو عمل کرتا ہے اس کا خود ذمے دار ہے کسی اور پر اس کا بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔

۳۔ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ: الخرص بنا بقولے کذب کو کہتے ہیں۔ اصل میں جو بات ظن و تخمین کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اسے خرص کہتے ہیں۔

۴۔ اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا: کیا ان کے پاس کوئی وحی نازل ہوئی جس کے ذریعے ان پر کوئی کتاب نازل ہوئی ہے کہ سند ہو جائے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ پس ان کے پاس نہ عقلی دلیل موجود ہے، نہ وحی کی دلیل ہے چونکہ وحی اور رسالت کے یہ لوگ قائل نہیں ہیں۔

اہم نکات

۱۔ نظریۂ جبر جہالت پر مبنی ہے: مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ۔۔۔۔

۲۔ نظریہ جبر، ظن و تخمین پر مبنی ہے۔

۳۔ نظریۂ جبر شان الٰہی میں شرک کی طرح گستاخی ہے۔


آیات 20 - 21