اللہ کے لیے اولاد ہونے کا عقیدہ


وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنۡ عِبَادِہٖ جُزۡءًا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾

۱۵۔ اور ان لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے (کچھ کو) اللہ کا جز (اولاد) بنا دیا، یہ انسان یقینا کھلا ناشکرا ہے۔

15۔ بندوں کو اللہ کا جز قرار دینے سے مراد اولاد ہے۔ ان لوگوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیا، کیونکہ اولاد باپ کا حصہ اور اس کے وجود کا ایک جز ہوتی ہے، جو اس سے الگ ہو کر وجود میں آتی ہے۔

اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخۡلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصۡفٰکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ کیا اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے (اپنے لیے) بیٹیاں بنا لیں اور تمہیں بیٹوں کے لیے منتخب کیا؟

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ حالانکہ جب ان میں سے کسی ایک کو بھی اس (بیٹی) کا مژدہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدائے رحمن کی طرف منسوب کی تھی تو اندر ہی اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔

17۔ مشرکین کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان بیٹیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وہ عورتوں کی شکل کے بت بناتے تھے اور پھر اولاد میں وہ بیٹیاں، جنہیں وہ اپنے لیے عار و ننگ سمجھتے تھے، اللہ کے حصے میں رکھتے تھے اور جن بیٹوں پر یہ لوگ فخر کرتے انہیں وہ اپنے حصے میں رکھتے تھے۔

اَوَ مَنۡ یُّنَشَّؤُا فِی الۡحِلۡیَۃِ وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ﴿۱۸﴾

۱۸۔ کیا وہ جو زیور (ناز و نعم) میں پلتی ہے اور جھگڑے میں (اپنا) مدعا واضح نہیں کر سکتی (اللہ کے حصے میں ہے)؟

18۔ یعنی جو اولادیں نرم و نازک اور تمہارے زعم میں تمہاری زندگی پر بوجھ ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں بات تک نہیں کر سکتیں اور زیوروں میں پلتی ہیں، ان کو اللہ کے حصے میں ڈال دیں۔ یہاں سے عورتوں کے لیے سونے کے زیورات استعمال کرنے کا جواز بھی معلوم ہوا۔