ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا: دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے، ان دونوں نے کہا: ہم بخوشی آ گئے۔

11۔ دھوئیں سے مراد وہ منتشر مادہ ہو سکتا ہے جو کائنات کی تخلیق سے پہلے فضا میں ایک غبار کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ ممکن ہے یہ مادہ وہی ہو جس کو آج کل کے سائنسدان سحابیے (Nebula) کہتے ہیں۔ تاہم ان سائنسی نظریات پر، جو اکثر تھیوری کے مراحل میں ہوتے ہیں، قرآنی حقائق کا انطباق کرنا درست نہیں ہے۔ زمین و آسمان کا فرمانبردار ہو کر آنا کُنۡ کے جواب میں فَیَکُوۡنُ کی طرح اللہ کے ارادے کے حتمی نفاذ کا ذکر ہے۔