آیات 13 - 14
 

فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُکُمۡ صٰعِقَۃً مِّثۡلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۳﴾

۱۳۔ اگر یہ منہ پھیر لیں تو کہدیجئے: میں نے تمہیں ایسی بجلی سے ڈرایا ہے جیسی بجلی قوم عاد و ثمود پر آئی تھی۔

اِذۡ جَآءَتۡہُمُ الرُّسُلُ مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنۡزَلَ مَلٰٓئِکَۃً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ جب ان کے پاس پیغمبر آگئے تھے ان کے سامنے اور پیچھے سے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو وہ کہنے لگے: اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے نازل کرتا پس جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا: اگر یہ لوگ ان تعلیمات سے منہ پھیر لیتے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ یعنی خدائے واحد کی بندگی سے، شرک ترک کرنے سے۔ حیات آخرت قبول کرنے سے منہ پھیر لیا تو اس قسم کے عذاب کے لیے تیار رہو جو قوم عاد و ثمود پر نازل ہوا ہے۔

قوم عاد و ثمود کا ذکر اس لیے فرمایا کہ عربوں کو ان دونوں قوموں کے تباہ شدہ آثار کا علم تھا۔

۲۔ اِذۡ جَآءَتۡہُمُ الرُّسُلُ: جب ان کے پاس رسولوں کا ایک سلسلہ جاری رہا۔

مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ: ان کے ہم عصر رسول تھے۔ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ: ان سے پہلے بھی رسول آئے تھے یا ممکن ہے مراد یہ ہو کہ رسولوں نے انہیں ہر طرف سے اللہ کا پیغام پہنچایا، کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس طرح شیطان ان لوگوں کو گمراہی کے لیے ہر طرف سے گھیر لیتا ہے۔

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ۔۔۔۔ (۷ اعراف:۱۷)

پھر ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں (ہر طرف) سے انہیں ضرور گھیر لوں گا۔

۳۔ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ: ان سب رسولوں کا پیغام یہ تھا کہ صرف ایک ہی معبود، اللہ کی عبادت کرو۔

۴۔ ان لوگوں نے اس دعوت کو یہ کہہ کر رد کیا کہ بشر اللہ کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اللہ کو اگر زمین پر اپنا نمائندہ بھیجنا منظور ہوتا تو کسی فرشتے کو بھیجتا۔

اصل میں مشرکین رسالت و نبوت کے منکر تھے۔ اس انکار کے لیے یہ ان کا ایک بہانہ ہوا کرتا تھا۔


آیات 13 - 14