آیت 12
 

فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا ؕ وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ٭ۖ وَ حِفۡظًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ پھر انہیں دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا اور محفوظ بھی بنایا، یہ سب بڑے غالب آنے والے، دانا کی تقدیر سازی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ: یہ دخان دو دن یا دو مرحلوں میں سات آسمان کی صورت میں آ گیا۔ ان مرحلوں کے بارے میں بشر کو کسی قسم کا کوئی علم نہیں ہے اور جو کچھ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے وہ ظن و تخمین اور مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۲۔ وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا: اور ان سات آسمانوں میں سے ہر ایک آسمان کو اس سے متعلق حکم بتا دیا۔ ہر ایک آسمان کو اپنا اپنا نظام دے دیا۔ اس سے بظاہر اشارہ ملتا ہے کہ ہر آسمان کا نظام، تصور، زمان و مکاں و دیگر فیزیکلی خصوصیات، اقدار اور پیمانے مختلف ہیں۔ جس طرح زمین کی کشش سے نکلنے کے بعد اوپر اور نیچے کا تصور بدلتا ہے ممکن ہے دوسرے آسمانوں میں تمام یا بیشتر پیمانے بدل جاتے ہوں۔

چنانچہ جنت کی زندگی کے بارے میں معلوم ہے: لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا۔۔۔۔ (۵۰ ق:۳۵ ( وہاں انسان جو چاہے گا مل جائے گا۔ یعنی جنت میں انسان کا ارادہ نافذ ہے۔ دنیا میں ہم اپنے ارادوں کو علل و اسباب کے مراحل سے گزارنے کے بعد نافذ کر سکتے ہیں۔ دنیا میں ہم اپنے ارادوں کو اللہ کے دیے ہوئے نظام میں انجام دے سکتے ہیں:

اَبَی اللّٰہُ اَنْ یُجْرِیَ الْاَشْیَائَ اِلَّا بِاَسْبَابٍ۔ ( الکافی:۱: ۱۸۳)

اللہ اس بات سے انکاری ہے کہ چیزیں سبب کے بغیر نافذ ہوں۔

مگر جنت میں صرف ارادہ کافی ہو گا۔

۳۔ وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ: ہم نے قریب ترین آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا، سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن ستاروں، کہکشاؤں کا وجود ہمارے لیے محسوس یا قابل محسوس ہے وہ سب آسمان اول سے مربوط ہیں۔ دیگر آسمانوں کے بارے میں انسان کو کچھ علم نہیں ہے۔

۴۔ وَ حِفۡظًا: ان ستاروں سے قریب ترین آسمان کو آراستہ کیا اور تحفظ کا بھی ذریعہ بنایا ہے۔ یعنی شیاطین سے بچانے کا ذریعہ۔ اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کا آسمان اول میں ہی داخلہ ممنوع ہے۔ آیت کے اس جملے کی تشریح سورہ صافات آیت ۶۔۷ میں بھی ہو چکی ہے۔

۵۔ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ: یہ ہر طاقت پر غالب آنے والے دانا کی تقدیر سازی ہے۔ اپنی قہاریت اور دانائی کے تحت ترتیب، تنظیم اور قدرتی تقنین ہے جس میں اپنی صناعیت اور قادریت کے ساتھ حکیمانہ تدبیری رموز ودیعت فرمائے۔ انہی تقدیری رموز کے ستون پر کائنات قائم ہے۔


آیت 12