قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ﴿۱۱﴾

۱۱۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی ہے،اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا نکلنے کی کوئی راہ ہے؟

11۔ بعض کے نزدیک پہلی موت وہ ہے جو دنیا میں آتی ہے، پھر برزخی زندگی پہلا احیاء ہے، پھر برزخی زندگی کو دوسری موت دی جاتی ہے، پھر قیامت کی زندگی دوسرا احیاء ہے۔ بعض کے نزدیک پہلی موت وہ ہے جو اس زندگی سے پہلے تھی: وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا ۔ پھر پہلی زندگی دنیوی زندگی ہے۔ دوسری موت وہ ہے جو دنیوی زندگی کا خاتمہ کرے اور دوسری حیات قیامت کی زندگی ہے۔ جب قیامت کے دن دوسری بار زندہ کر دیے جائیں گے تو یہ لوگ اقرار کریں گے کہ وہ دن سچ مچ آ گیا جس کی انبیاء نے خبر دی تھی۔

ذٰلِکُمۡ بِاَنَّہٗۤ اِذَا دُعِیَ اللّٰہُ وَحۡدَہٗ کَفَرۡتُمۡ ۚ وَ اِنۡ یُّشۡرَکۡ بِہٖ تُؤۡمِنُوۡا ؕ فَالۡحُکۡمُ لِلّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡکَبِیۡرِ﴿۱۲﴾

۱۲۔ایسا اس لیے ہوا کہ جب خدائے واحد کی طرف دعوت دی جاتی تھی تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے تھے، پس (آج) فیصلہ برتر، بزرگ اللہ کے پاس ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُنَزِّلُ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ رِزۡقًا ؕ وَ مَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنۡ یُّنِیۡبُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ وہ وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل فرماتا ہے اور نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتا ہے جو (اس کی طرف ) رجوع کرتا ہے۔

13۔ پہلے بھی متعدد آیات میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ روزی کے بیشتر اسباب آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ مثلاً ہوا، دھوپ، بارش اور بجلی وغیرہ۔

فَادۡعُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ پس دین کو صرف اس کے لیے خالص کر کے اللہ ہی کو پکارو اگرچہ کفار کو برا لگے۔

رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ ۚ یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ لِیُنۡذِرَ یَوۡمَ التَّلَاقِ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ وہ بلند درجات کا مالک اور صاحب عرش ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن کے بارے میں متنبہ کرے۔

15۔ روح سے مراد وحی اور نبوت ہے۔ اللہ نے اپنی حکیمانہ مشیت کے مطابق اپنے بندوں میں سے جس پر چاہا وحی نازل کی۔ اللہ کی مشیت اندھی بانٹ نہیں ہے، بلکہ جو اہل ہے، اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔

یَوۡمَ ہُمۡ بٰرِزُوۡنَ ۬ۚ لَا یَخۡفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنۡہُمۡ شَیۡءٌ ؕ لِمَنِ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ؕ لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اس دن وہ سب (قبروں سے) نکل پڑیں گے، اللہ سے ان کی کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے گی، (اس روز پوچھا جائے گا) آج کس کی بادشاہت ہے؟ (جواب ملے گا) خدائے واحد، قہار کی ۔

16۔ دنیا چونکہ دار الامتحان تھی، اس لیے وہاں انسانوں کو خود مختار چھوڑ دیا گیا تھا۔ سو وہ وہاں اپنی بادشاہی کا ڈنکا بجاتے تھے۔ آج روز حساب ہے۔ بتاؤ آج کس کی بادشاہی ہے؟ حقیقی بادشاہ تو وہ ہے جس کے قبضۂ قدرت میں یوم الحساب ہے۔

اَلۡیَوۡمَ تُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ ؕ لَا ظُلۡمَ الۡیَوۡمَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۱۷﴾

۱۷۔ آج ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا، آج ظلم نہیں ہو گا، اللہ یقینا جلد حساب لینے والا ہے۔

17۔ قیامت کے روز ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے گا۔ آج ظلم نہیں ہو گا۔ اللہ کی ذات بے نیاز ہے، ظلم کر کے وہ اپنی کون سی ضرورت پوری کرے گا نیز وہ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ہے، بہ یک وقت سب کا حساب ہو گا، اس اعتبار سے بھی ظلم سرزد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

وَ اَنۡذِرۡہُمۡ یَوۡمَ الۡاٰزِفَۃِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَی الۡحَنَاجِرِ کٰظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔ انہیں قریب الوقوع دن کے بارے میں متنبہ کیجیے، جب دل حلق تک آ رہے ہوں گے، غم سے گھٹ گھٹ جائیں گے، ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ ہی کوئی ایسا سفارشی جس کی بات سنی جائے۔

18۔ الۡاٰزِفَۃِ ، یعنی قریب آنے والا۔ قیامت کو یَوۡمَ الۡاٰزِفَۃِ کہتے ہیں، کیونکہ وہ روز بروز قریب آتی جا رہی ہے۔

یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اللہ نگاہوں کی خیانت اور جو کچھ سینوں میں پوشیدہ ہے سے واقف ہے۔

وَ اللّٰہُ یَقۡضِیۡ بِالۡحَقِّ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَقۡضُوۡنَ بِشَیۡءٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ اور اللہ برحق فیصلہ کرتا ہے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا فیصلہ کرنے کے (اہل) نہیں ہیں، یقینا اللہ ہی خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

20۔ چونکہ تمام فیصلے اسی کے پاس ہیں، چونکہ خالق وہی رازق وہی، تدبیر اسی کی، تشریح اسی کی طرف سے، قانون اسی نے دیا ہے، لہٰذا فیصلہ بھی وہی کرے گے۔ غیر اللہ کے پاس مندرجہ بالا چیزوں میں سے ایک بھی نہیں ہے، وہ کس چیز کا فیصلہ کریں گے۔