آیت 13
 

ہُوَ الَّذِیۡ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُنَزِّلُ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ رِزۡقًا ؕ وَ مَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنۡ یُّنِیۡبُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ وہ وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے رزق نازل فرماتا ہے اور نصیحت تو صرف وہی حاصل کرتا ہے جو (اس کی طرف ) رجوع کرتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ ہُوَ الَّذِیۡ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ: اللہ نے اس کائنات، آفاق و انفس میں اپنی ایک نہیں بے شمار نشانیاں دکھائی ہیں جو اللہ کی ربوبیت، وحدانیت اور مدبریت پر دلالت کرتی ہیں۔

کسی غیر خدا معبود کی طرف سے ایک آیت دکھاؤ:

ہٰذَا خَلۡقُ اللّٰہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ۔۔۔۔ (۳۱ لقمان: ۱۱)

یہ ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے۔۔۔۔

اس جگہ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لَوْ کَانَ اِلَہٌ آخَرُ لَاَتَتْکَ رُسُلُہُ وَ لَرَاَیْتَ آثَارَ مَمْلَکَتِہِ۔ (وسائل الشیعۃ ۲۷: ۱۷۵)

اگر کوئی اور معبود ہوتا تو اس کی طرف سے رسول آتے اور اس کی مملکت کے آثار دکھائی دیتے۔

۲۔ وَ یُنَزِّلُ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ رِزۡقًا: اللہ تعالیٰ کی تدبیری نشانیوں میں ایک اہم اور سب کے لیے محسوس نشانی روزی کی فراہمی ہے۔ یہ روزی اللہ آسمان سے فراہم کرتا ہے، جو آسمان خود مشرکین کے اعتراف کے مطابق اللہ کا بنایا ہوا ہے۔

پہلے بھی متعدد آیات میں اس بات کا ذکر آیا ہے کہ روزی کے بیشتر اسباب آسمان سے فراہم ہوتے ہیں۔ مثلاً ہوا، دھوپ، بارش اور بجلی۔ بجلی کی چمک سے فضا سے نائٹروجن زمین پر بارش کے پانی کے ذریعے گرتی ہے اور قدرتی کھاد کی صورت میں زمین کو سرسبز کرتی ہے۔

۳۔ وَ مَا یَتَذَکَّرُ اِلَّا مَنۡ یُّنِیۡبُ: ان سے آگاہ وہی ہو سکتے ہیں جو عناد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر ان نشانیوں میں غور کریں۔ ہٹ دھرمی کے ساتھ کسی کی فکر و ذکر فعال نہیں ہو سکتی۔


آیت 13