اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَانُوۡا ہُمۡ اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً وَّ اٰثَارًا فِی الۡاَرۡضِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّاقٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ وہ ان لوگوں کا انجام دیکھ لیتے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ طاقت اور زمین پر اپنے آثار چھوڑنے میں ان سے کہیں زیادہ زبردست تھے، پس اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔

21۔ اسلام سے قبل کی تہذیب و تمدن اور گزشتہ جابروں کی قوت و سلطنت کے آثار کا مطالعہ کرنے کی ترغیب ہے، جن کے آثار اب تک کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَکَفَرُوۡا فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّہٗ قَوِیٌّ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ یہ اس لیے کہ ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آتے تھے لیکن انہوں نے انکار کر دیا، پھر اللہ نے انہیں گرفت میں لے لیا، اللہ یقینا بڑا طاقتور، عذاب دینے میں سخت ہے۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور واضح دلائل کے ساتھ بھیجا،

اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ قَارُوۡنَ فَقَالُوۡا سٰحِرٌ کَذَّابٌ﴿۲۴﴾

۲۴۔ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو ان لوگوں نے کہا: یہ تو بہت جھوٹا جادوگر ہے۔

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡحَقِّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوا اقۡتُلُوۡۤا اَبۡنَآءَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ وَ اسۡتَحۡیُوۡا نِسَآءَہُمۡ ؕ وَ مَا کَیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ﴿۲۵﴾

۲۵۔ پس جب انہوں نے ہماری طرف سے ان لوگوں کو حق پہنچایا تو وہ کہنے لگے: جو اس کے ساتھ ایمان لے آئیں، ان کے بیٹوں کو قتل کر دو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دو (مگر) کافروں کی چال اکارت ہی جاتی ہے۔

25۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل تھے، لیکن دشمن کا ہر حربہ اس وقت ناکام ہو جاتا ہے جب اہل حق صبر و استقامت سے کام لیں۔

وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کروں اور وہ اپنے رب کو پکارے مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد برپا کرے گا۔

26۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حیرت انگیز معجزات دیکھ کر فرعون کے درباریوں میں اس قسم کی سوچ موجود تھی کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے دعویٰ میں سچے ہو سکتے ہیں، لہٰذا ان کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے میں تأمل سے کام لینا چاہیے۔ اس لیے جب پہلی بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اژدھے اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا تو درباریوں نے کہا: اَرْجِہْ وَاَخَاہُ (شعراء : 36) اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دے دو۔ اس جگہ فرعون کا یہ کہنا : مجھے چھوڑو میں موسیٰ علیہ السلام کو قتل کروں، قرینہ بنتا ہے کہ کچھ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے حق میں نہ تھے۔ چنانچہ اگلی آیت میں اس مومن کا ذکر بھی آ گیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے حق میں نہ تھے۔

وَ قَالَ مُوۡسٰۤی اِنِّیۡ عُذۡتُ بِرَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ مِّنۡ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤۡمِنُ بِیَوۡمِ الۡحِسَابِ﴿٪۲۷﴾

۲۷۔ اور موسیٰ نے کہا: میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے سے جو یوم حساب پر ایمان نہیں لاتا۔

27۔ طاغوت اور متکبر کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ کی پناہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ فرعون کے تکبر کا اندازہ اس جملے سے ہوتا ہے: وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ وہ اپنے رب کو پکارے۔ یعنی میں دیکھتا ہوں اس کا رب اسے کیسے بچاتا ہے۔

وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ اَتَقۡتُلُوۡنَ رَجُلًا اَنۡ یَّقُوۡلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَ قَدۡ جَآءَکُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیۡہِ کَذِبُہٗ ۚ وَ اِنۡ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبۡکُمۡ بَعۡضُ الَّذِیۡ یَعِدُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ مُسۡرِفٌ کَذَّابٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہنے لگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے؟ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اس کے خلاف جائے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں سے کچھ تو تم پر واقع ہو ہی جائے گا، اللہ یقینا تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔

28۔ جابروں اور تنگ نظروں سے خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں حق کا چھپانا جابروں کے لیے باعث ننگ و عارہے، حق چھپانے والے کے لیے نہیں۔ جیسا کہ نظریہ خلق قرآن کے بارے میں بنی عباس کے تنگ نظر جابروں کے سامنے علماء کو اپنا نظریہ چھپانا پڑا تھا۔ چنانچہ مومن آل فرعون اپنی تقریر میں حق کو برملا ظاہر نہیں کرتے، بلکہ بظاہر تردد کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہیں تو ان کے جھوٹ کی سزا ضرور ملے گی، تمہیں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ سچے ہیں تو وہ جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں، اس میں سے کچھ تو وقوع پذیر ہو گا۔

یٰقَوۡمِ لَکُمُ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ظٰہِرِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ فَمَنۡ یَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰہِ اِنۡ جَآءَنَا ؕ قَالَ فِرۡعَوۡنُ مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی وَ مَاۤ اَہۡدِیۡکُمۡ اِلَّا سَبِیۡلَ الرَّشَادِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اے میری قوم! آج تمہاری بادشاہت ہے اور ملک میں تم غالب ہو پس اگر ہم پر اللہ کا عذاب آگیا تو ہماری کون مدد کرے گا؟ فرعون نے کہا: میں تمہیں صرف وہی رائے دوں گا جسے میں صائب سمجھتا ہوں اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو درست ہے۔

29۔ آل فرعون کا یہ مومن اپنے ایمان کا کھل کر اظہار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ فرعون کا خیر خواہ ظاہر کر کے کہتے ہیں: فَمَنۡ یَّنۡصُرُنَا مِنۡۢ بَاۡسِ اللّٰہِ اِنۡ جَآءَنَا اگر ہم پر اللہ کا عذاب آ گیا تو ہماری کون مدد کرے گا۔ لیکن اقتدار کے نشے میں بد مست لوگ کبھی اپنے فردا کے بارے میں نہیں سوچتے، نہ ہی کسی ناصح کی نصیحت پر توجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ جابر اپنے جبر ہی کو صائب سمجھتا ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡۤ اٰمَنَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ مِّثۡلَ یَوۡمِ الۡاَحۡزَابِ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ اور جو شخص ایمان لایا تھا کہنے لگا: اے میری قوم! مجھے خوف ہے کہ تم پر کہیں وہ دن نہ آئے جیسا (پہلی) امتوں پر آیا تھا،

30۔ یہ وہی مومن آل فرعون ہے۔ اس مومن کے پیغمبرانہ اقوال دیکھ کر بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس جگہ الَّذِیۡۤ اٰمَنَ سے مراد خود حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔