آیت 18
 

وَ اَنۡذِرۡہُمۡ یَوۡمَ الۡاٰزِفَۃِ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَی الۡحَنَاجِرِ کٰظِمِیۡنَ ۬ؕ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ حَمِیۡمٍ وَّ لَا شَفِیۡعٍ یُّطَاعُ ﴿ؕ۱۸﴾

۱۸۔ انہیں قریب الوقوع دن کے بارے میں متنبہ کیجیے، جب دل حلق تک آ رہے ہوں گے، غم سے گھٹ گھٹ جائیں گے، ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ ہی کوئی ایسا سفارشی جس کی بات سنی جائے۔

تشریح کلمات

الۡاٰزِفَۃِ:

( ا ز ف ) وقت کے ضیق اور قریب آنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَنۡذِرۡہُمۡ یَوۡمَ الۡاٰزِفَۃِ: قیامت کے دن کے بارے میں ان کی تنبیہ کیجیے جو عنقریب آنے ہی والا ہے۔ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے۔ اس کے مقابلے میں قیامت کے بعد کی زندگی ابدی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:

من مات قامت قیامتہ۔ (بحار ۵۸: ۷)

جو مر گیا، اس کی قیامت برپا ہو گئی۔

اس کی یہ توضیح کی گئی ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے حیات برزخی نہیں ہے۔ انہیں ایسا لگے گا کہ مرنے کے دوسرے لمحے میں قیامت برپا ہو گئی۔

۲۔ اِذِ الۡقُلُوۡبُ لَدَی الۡحَنَاجِرِ: اس دن کی ہولناکی کی یہ حالت ہو گی کہ کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے۔ محشر میں ہر شخص اپنے مستقبل کا فیصلے سننے کے لیے بے تاب ہو گا۔ ابدی زندگی کافیصلہ ،کس قدر کربناک لمحات ہوں گے۔

۳۔ کٰظِمِیۡنَ: غم کے گھونٹ پی رہے ہوں گے۔ اظہار کریں تو کس سے کریں۔

۴۔ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ حَمِیۡمٍ: یہاں کوئی دوست ہے اور نہ سفارشی۔ کس سے فریاد کریں؟ جس کی طرف دیکھیں؟ نفسا نفسی کی حالت میں ہر ایک حواس باختہ ہے۔


آیت 18