آیت 15
 

رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ ۚ یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ لِیُنۡذِرَ یَوۡمَ التَّلَاقِ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ وہ بلند درجات کا مالک اور صاحب عرش ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن کے بارے میں متنبہ کرے۔

تفسیر آیات

۱۔ رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ: رفیع اگر بمعنی رافع ہے تو معنی یہ ہوں گے: وہ اپنے نیک بندوں کے درجات بلند کرنے والا ہے اور اگر بمعنی المرتفع ہو تو معنی یہ ہوں گے: وہ بلند ذات ہے اپنے علم و قدرت اور تمام اوصاف کمالیہ میں۔ ممکن ہے ذُو الْعَرْشِ قرینہ بن جائے دوسرے معنی کے لیے۔

۲۔ ذُو الۡعَرۡشِ: وہ عرش کا مالک ہے۔ ہم نے عرش کی تفسیر اللہ تعالیٰ کے مقام تدبیری سے کی ہے۔ اس کے مطابق ذُو الۡعَرۡشِ کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ تدبیر کائنات کا مالک ہے۔

۳۔ یُلۡقِی الرُّوۡحَ مِنۡ اَمۡرِہٖ: روح سے مراد یہاں وحی ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر وحی کو روح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ النحل آیت ۲ اور سورہ شوری آیت ۵۲۔

وحی چونکہ ایک حیات بخش دستور اور انسانیت کے لیے ابدی حیات کی سعادت لے کر آتی ہے اس لیے وحی کو روح کہا ہے۔

۴۔ مِنۡ اَمۡرِہٖ: وحی کا تعلق امر الٰہی سے ہے اور امر الٰہی وہ امر تکوینی ہے جو کن فیکون سے مربوط ہے۔

۵۔ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ: یہ وحی اس ذات پر نازل ہو سکتی ہے جو مشیت الٰہی کے معیار وحی پرپوری اترتی ہو چونکہ وحی ظاہری حواس پر نہیں اترتی، اس ذات کے مرکزی نکتے پر اترتی ہے جسے قرآن قلب سے تعبیر کرتا ہے۔

۶۔ لِیُنۡذِرَ یَوۡمَ التَّلَاقِ: وحی نازل کرنے کا ہدف بیان ہوا ہے کہ وحی انسان کو ان تمام خطرات سے آگاہ کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے حائل اور رکاوٹ ہیں۔


آیت 15