وَ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیۡرٌۢ بَصِیۡرٌ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور ہم نے جو کتاب آپ کی طرف وحی کی ہے وہی برحق ہے، یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی ہیں، یقینا اللہ اپنے بندوں سے خوب باخبر، ان پر نظر رکھنے والا ہے۔

ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا ۚ فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے پس ان میں سے کچھ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بڑا فضل ہے

32۔ جن لوگوں کو کتاب اس لیے دی گئی کہ وہ ان کے لیے دستور زندگی ہو، وہ تین گروہوں میں منقسم ہو گئے: ایک گروہ نے اس دستور زندگی سے انحراف کیا اور اس سعادت ابدی سے اپنے آپ کو محروم کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اللہ کی طرف سے اس برگزیدہ قوم میں شامل کرنے کے باوجود یہ لوگ عملاً منحرف ہو کر اس سے نکل جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو اس برگزیدہ قوم سے بالکل منحرف بھی نہیں ہوتا اور اس کا حق بھی پورا ادا نہیں کرتا۔ تیسرا گروہ، وہ لوگ ہیں جو وارث کتاب ہونے کا حق ادا کرتے ہیں اور یہی لوگ وارث کتاب ٹھہرتے ہیں۔ ائمہ اہل بیت علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس کا مصداق آل رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہ اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: السَّابِقُ بِالْخَیْرَاتِ الْاِمَامُ وَ الْمُقْتَصِدُ الْعَارِفُ لِلْاِمَامِ وَ الظَّالِمُ لِنَفْسِہِ الّذِی لَا یَعْرِفُ الْاِمَامَ ۔ (الکافی1: 214) نیکیوں میں سبقت لے جانے والے امام ہیں، میانہ رو والے امام کی معرفت رکھنے والے ہیں اور ظالم وہ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے۔

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ لُؤۡلُؤًا ۚ وَ لِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ﴿۳۳﴾

۳۳۔ وہ دائمی جنتیں ہیں جن میں یہ داخل ہوں گے، وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہو گا۔

وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَذۡہَبَ عَنَّا الۡحَزَنَ ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوۡرٌ شَکُوۡرُۨ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہم سے غم کو دور کیا، یقینا ہمارا رب بڑا معاف کرنے والا قدردان ہے۔

34۔ آیت میں الحزن سے مقصود یا تو دنیا کا حزن و ملال ہے یا اپنی نجات کے بارے میں حزن و ملال تھا، جو جنت میں پہنچنے سے دور ہو گیا۔

الَّذِیۡۤ اَحَلَّنَا دَارَ الۡمُقَامَۃِ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ لَا یَمَسُّنَا فِیۡہَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیۡہَا لُغُوۡبٌ﴿۳۵﴾

۳۵۔ جس نے اپنے فضل سے ہمیں دائمی اقامت کی جگہ میں ٹھہرایا جہاں ہمیں نہ کوئی مشقت اور نہ تھکاوٹ لاحق ہو گی۔

35۔ یہ دائمی اقامت گاہ اپنے کسی عمل کے عوض نہیں بلکہ اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے میسر آئی۔ جنت چونکہ امتحان و آزمائش کا مقام نہیں ہے، اس لیے وہاں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَہُمۡ نَارُ جَہَنَّمَ ۚ لَا یُقۡضٰی عَلَیۡہِمۡ فَیَمُوۡتُوۡا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمۡ مِّنۡ عَذَابِہَا ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِیۡ کُلَّ کَفُوۡرٍ ﴿ۚ۳۶﴾

۳۶۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے جہنم کی آتش ہے، نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب جہنم میں تخفیف کی جائے گی، ہر کفر کرنے والے کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

36۔ سوال یہ پیدا کرتے ہیں: کافر کو ہمیشہ کا عذاب دینا ظلم نہیں، کیونکہ اس نے صرف ستر، اسی (70، 80) سال جرم کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ انسان کے اچھے برے اعمال اس کے جسم کے حصے ہوتے ہیں جو انرجی کی شکل میں اس کے جسم سے نکل جاتے ہیں۔ یہ انرجی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ ایک ذرہ بھی نابود نہیں ہوتا۔ آخرت میں یہ انرجی انسان کی طرف لوٹ آتی ہے، پھر انسان کے وہی اعضاء دوبارہ تشکیل پاتے ہیں جن سے یہ اچھے برے اعمال صادر ہوئے تھے۔ لہٰذا اعمال ابدی ہیں، خواہ اچھے ہوں یا برے۔ (استفادہ از قاموس قرآن)

وَ ہُمۡ یَصۡطَرِخُوۡنَ فِیۡہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ مَنۡ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیۡرُ ؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ﴿٪۳۷﴾

۳۷۔ اور وہ جہنم میں چلا کر کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمیں اس جگہ سے نکال، ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم (پہلے) کرتے رہے ہیں، (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کر سکتا تھا؟ جب کہ تمہارے پاس تنبیہ کرنے والا بھی آیا تھا، اب ذائقہ چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

37۔ عذاب کے مشاہدے کے بعد ایک بار دنیا کی طرف مراجعت کی تمنا ایک قدرتی امر ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ کافر عفو الٰہی کی تمنا نہیں کرتے بلکہ دنیا میں واپس بھیجنے کی تمنا کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا علم ہو گیا ہوتا ہے کہ عفو کا وقت گزر چکا ہے۔ چونکہ ایمان و عمل ہی ذریعہ نجات تھے، لہٰذا اب وہ دنیا میں واپس جا کر اس ذریعے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اِنَّ اللّٰہَ عٰلِمُ غَیۡبِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۳۸﴾

۳۸۔ یقینا اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے اور وہ ان باتوں کو بھی خوب جانتا ہے جو سینوں میں (مخفی) ہیں۔ـ

ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَمَنۡ کَفَرَ فَعَلَیۡہِ کُفۡرُہٗ ؕ وَ لَا یَزِیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ کُفۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ اِلَّا مَقۡتًا ۚ وَ لَا یَزِیۡدُ الۡکٰفِرِیۡنَ کُفۡرُہُمۡ اِلَّا خَسَارًا﴿۳۹﴾

۳۹۔ اسی نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا، پس جو کفر کرتا ہے اس کے کفر کا نقصان اسی کو ہے اور کفار کے لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک صرف غضب میں اضافہ کرتا ہے اور کفار کے لیے ان کا کفر صرف ان کے خسارے میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔

39۔ پوری انسانیت یعنی نوع انسانی سے خطاب ہے کہ اللہ نے تمہیں گزشتہ نسلوں کی جگہ جانشین بنایا یا زمین میں تمہیں اللہ کی طرف سے تصرفات کے عارضی مجاز ہونے کی حیثیت سے جانشین بنایا ہے، ورنہ حقیقی مالکیت کا حق تو صرف اسی ذات کو حاصل ہے۔ اس آیت میں وقت کے مشرکین کی رد میں فرمایا: نسلوں کا سلسلہ جاری رکھنا جہاں تدبیر سے مربوط ہے، وہاں تخلیق سے بھی مربوط ہے۔ اس طرح اس آیت میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ تدبیر اور تخلیق ناقابل تفریق ہیں۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ شُرَکَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ اَمۡ لَہُمۡ شِرۡکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۚ اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا فَہُمۡ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنۡہُ ۚ بَلۡ اِنۡ یَّعِدُ الظّٰلِمُوۡنَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۴۰﴾

۴۰۔ کہدیجئے: مجھے بتاؤ ان شریکوں کے بارے میں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ مجھے دکھلاؤ! انہوں نے زمین سے کیا پیدا کیا؟ یا کیا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟ یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے جس کی بنا پر یہ کوئی دلیل رکھتے ہوں؟ (نہیں) بلکہ یہ ظالم لوگ ایک دوسرے کو محض فریب کی خاطر وعدے دیتے ہیں۔

40۔ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا : مجھے دکھلاؤ تمہارے شریکوں نے کیا پیدا کیا؟ اس آیت میں بھی وہی نکتہ بیان کیا ہے کہ اگر تمہارے شریک اس کائنات کی تدبیر میں کوئی کردار رکھتے ہیں تو تدبیر کے لیے تخلیق مسلسل چاہیے۔ بتاؤ تمہارے شریکوں نے کیا خلق کیا ہے؟ اور اگر یہ کام نہ کر سکو تو کوئی سند پیش کرو کہ ان شریکوں کا تدبیر میں کوئی حصہ ہے۔