وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ﴿ۚ۲۱﴾

۲۱۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ،

وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہو سکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔

22۔ جس میں بینائی نہ ہو، جو روشنی سے آشنا ہی نہ ہو، جس میں زندگی کے آثار موجود نہ ہوں اور جو قبر میں مدفون بے جان لاش کی طرح ہو، اسے آپ کیا سمجھائیں گے؟ سمجھانے والے میں کوئی نقص نہیں، لیکن سمجھنے والے میں اہلیت نہیں ہے۔

اِنۡ اَنۡتَ اِلَّا نَذِیۡرٌ﴿۲۳﴾

۲۳۔ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ﴿۲۴﴾

۲۴۔ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

24۔ کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی امت ایسی نہیں گزری کہ اس امت میں سے کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ اس سے یہ بات سمجھنے میں آسان ہو جائے گی کہ ہر امت کی من حیث المجموع تنبیہ ہو گئی ہے۔ اس کے لیے ہر قوم میں الگ الگ انبیاء نہیں بھیجے گئے، بلکہ انبیاء کا پیغام اس قوم تک پہنچ گیا یا گزشتہ انبیاء کی رسالت کے آثار نسلوں تک باقی ہیں۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت کے آثار نسلوں تک باقی رہے تو یہ کہنا درست ہے کہ ان تمام نسلوں کی تنبیہ ہو گئی، یعنی ان پر حجت پوری ہو گئی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ہر فرد تک یہ پیغام نہ پہنچے۔ اس صورت میں اس شخص کو قرآنی اصطلاح میں مستضعف کہتے ہیں۔ ان کا مؤاخذہ نہیں ہو گا، چونکہ ان پر حجت پوری نہیں ہوئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بت پرستی، توحید پرستی کا ایک انحرافی مسلک ہے۔ لہٰذا جہاں بت پرستی ہے وہاں توحید پرستی تھی اور وہاں کوئی نبی مبعوث تھا۔ چنانچہ امریکہ کا انکشاف کرنے والے کہتے ہیں: وہاں آفتاب پرستی کے لیے عبادت خانہ تھا۔ تازہ آنے والوں کو شروع میں وہ آفتاب کی اولاد سمجھتے تھے۔ (قاموس قرآن)

وَ اِنۡ یُّکَذِّبُوۡکَ فَقَدۡ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۚ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ﴿۲۵﴾

۲۵۔ اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی ہے، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔

ثُمَّ اَخَذۡتُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ پھر جنہوں نے کفر کیا میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھا) میرا عذاب کیسا سخت تھا؟

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا ؕ وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے؟ اور پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی سفید سرخ گھاٹیاں پائی جاتی ہیں اور کچھ گہری سیاہ ہیں۔

وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ کَذٰلِکَ ؕ اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ غَفُوۡرٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں میں بھی رنگ پائے جاتے ہیں، اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، معاف کرنے والا ہے۔

28۔ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ : رنگوں، طبیعتوں، خاصیتوں اور مزاج کا اختلاف خالق کی صناعیت اور حسن تدبیر کی دلیل ہے۔

اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ : صرف اہل علم اللہ سے ڈرتے ہیں۔ علم سے ہی جمالیاتی ذوق بیدار ہوتا ہے۔ کائنات کی رنگا رنگ رعنائیوں کو دیکھ کر عالم اس کے خالق کی خلاقیت اور صنعت گری کی معرفت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ علم کی وجہ سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ پردے ہٹ جانے سے حقیقت کا چہرہ نمایاں ہو جاتا ہے اور حقیقت کے منکشف ہونے کے بعد انسان خطرات کو بھانپ لیتا ہے۔ بالکل اس شخص کی طرح جو قانون اور جرم و سزا سے آشنا ہو، وہ قانون کے عدل سے خوف کھاتا ہے۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب اس کے عدل سے ڈرنا ہے، ورنہ وہ خود ارحم الراحمین ہے۔

حدیث میں آیا ہے: یَعْنِی بِالْعُلَمَائِ مَنْ صَدَّقَ فِعْلُہُ قَوْلَہُ وَ مَنْ لَمْ یُصَدِّقْ فِعْلُہُ قَوْلَہُ فَلَیْسَ بِعَالِمٍ (الکافی 1: 36) علماء سے مراد وہ ہیں جن کا عمل ان کے قول کی تصدیق کرے۔ پس جن کا عمل ان کے قول کی تصدیق نہ کرے وہ عالم نہیں ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے ساتھ امید لگائے ہوئے ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہو گا۔

29۔ ایسی تجارت جس میں منافع کی ضمانت دی گئی ہے۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنا ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی ہے۔ دنیوی تجارت میں، سرمائے میں خوبی ہو تو زیادہ منافع ملتا ہے، اللہ کے ساتھ تجارت میں سرمایہ کار میں خوبی ہو تو منافع یقینی ہے۔ اس لیے اس سرمایہ کار کے بارے میں فرمایا : یہ سرمایہ کار کتاب اللہ کی تلاوت اور نماز قائم کرتا ہو۔

لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ﴿۳۰﴾

۳۰۔ تاکہ اللہ ان کا پورا اجر انہیں دے بلکہ اپنے فضل سے مزید بھی عطا فرمائے، یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدردان ہے۔