قرآن اور لوگوں کی تین قسمیں


ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا ۚ فَمِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَضۡلُ الۡکَبِیۡرُ ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے پس ان میں سے کچھ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بڑا فضل ہے

32۔ جن لوگوں کو کتاب اس لیے دی گئی کہ وہ ان کے لیے دستور زندگی ہو، وہ تین گروہوں میں منقسم ہو گئے: ایک گروہ نے اس دستور زندگی سے انحراف کیا اور اس سعادت ابدی سے اپنے آپ کو محروم کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اللہ کی طرف سے اس برگزیدہ قوم میں شامل کرنے کے باوجود یہ لوگ عملاً منحرف ہو کر اس سے نکل جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو اس برگزیدہ قوم سے بالکل منحرف بھی نہیں ہوتا اور اس کا حق بھی پورا ادا نہیں کرتا۔ تیسرا گروہ، وہ لوگ ہیں جو وارث کتاب ہونے کا حق ادا کرتے ہیں اور یہی لوگ وارث کتاب ٹھہرتے ہیں۔ ائمہ اہل بیت علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس کا مصداق آل رسول ﷺ ہیں۔

روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام سے کہ اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: السَّابِقُ بِالْخَیْرَاتِ الْاِمَامُ وَ الْمُقْتَصِدُ الْعَارِفُ لِلْاِمَامِ وَ الظَّالِمُ لِنَفْسِہِ الّذِی لَا یَعْرِفُ الْاِمَامَ ۔ (الکافی1: 214) نیکیوں میں سبقت لے جانے والے امام ہیں، میانہ رو والے امام کی معرفت رکھنے والے ہیں اور ظالم وہ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے۔