اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ۚ وَ لَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا﴿۴۱﴾

۴۱۔ اللہ آسمانوں اور زمین کو یقینا تھامے رکھتا ہے کہ یہ اپنی جگہ چھوڑ نہ جائیں، اگر یہ اپنی جگہ چھوڑ جائیں تو اللہ کے بعد انہیں کوئی تھامنے والا نہیں ہے، یقینا اللہ بڑا بردبار، بخشنے والا ہے۔

41۔ کائنات کی اس بیکراں فضا میں موجود اجرام کو ایک غیر مرئی کڑی میں اسی نے مربوط رکھا ہے۔ یہ کڑی اگر ٹوٹ جائے (جس کی سائنسدان پیشگوئی کرتے ہیں) تو کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کائنات کو سنبھالے اور ان کڑیوں کو دوبارہ جوڑ دے۔ جس ذات نے اس کائنات کو خلق کیا ہے وہی اس کائنات کو قائم رکھ سکتی ہے۔ لہٰذا مشرکین کا یہ نظریہ کسی بنیاد پر قائم نہیں ہے کہ تدبیر کائنات میں ان کے معبودوں کا کوئی کردار ہے۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ لَّیَکُوۡنُنَّ اَہۡدٰی مِنۡ اِحۡدَی الۡاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ مَّا زَادَہُمۡ اِلَّا نُفُوۡرَۨا ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا آتا تو وہ ہر قوم سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو جاتے لیکن جب ایک متنبہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو ان کی نفرت میں صرف اضافہ ہی ہوا۔

42۔ بعض مصادر میں آیا ہے کہ قریش نے جب سنا یہود و نصاریٰ نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ہے تو کہا: اگر ہمارے پاس کوئی رسول آتا تو ہم ان سے بہتر اس کی پزیرائی کرتے۔ جب وہ رسول آیا تو اس رسول سے ان کی نفرت زیادہ تھی۔

اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٴ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا﴿۴۳﴾

۴۳۔ یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الٰہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔

43۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ سے مراد قانون الہٰی ہے، جو مجرمین کے لیے ہے۔ اس میں نہ کوئی تبدیلی آئے گی کہ سزا کی جگہ انعام دیا جائے، نہ کوئی تحویل ہو گی کہ مجرم قوم کی جگہ دوسری قوم کو سزا ملے، بلکہ اللہ کا قانون اٹل ہے اور اس قانون کی زد میں صرف مجرم ہی آئیں گے۔

وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ : اس آیہ شریفہ میں مشرکین کی بری چال کے ذکر کے بعد ایک اصول ارشاد فرمایا: بری چالیں خود چال چلنے والے کو ہی لے ڈوبتی ہیں۔ ہر عمل اور ہر چال کا ایک قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اس میں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔

حدیث میں آیا ہے: خمسۃ فی کتاب اللہ تعالیٰ من کن فیہ کن علیہ قیل و ما ہی یا رسول اللہ قال: النکث و المکر و البغی و الخداع و الظلم (معدن الجواہر ص48) پانچ چیزیں اگر کسی میں ہوں تو اس کے خلاف ثابت ہوں گی۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ پانچ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: عہد شکنی، مکر، بغاوت، دھوکہ اور ظلم۔

اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعۡجِزَہٗ مِنۡ شَیۡءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیۡمًا قَدِیۡرًا﴿۴۴﴾

۴۴۔ کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ جب کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے، اللہ کو آسمانوں اور زمین میں کوئی شے عاجز نہیں کر سکتی، وہ یقینا بڑا علم رکھنے والا، بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔

وَ لَوۡ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوۡا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہۡرِہَا مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ لٰکِنۡ یُّؤَخِّرُہُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیۡرًا﴿٪۴۵﴾

۴۵۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کی حرکات کی پاداش میں اپنی گرفت میں لے لیتا تو وہ روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے چنانچہ جب ان کا مقررہ وقت آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔

45۔ یعنی مجرم اور ظالم لوگوں میں سے کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا۔ اس سے یہ سوال ختم ہوا کہ دَآبَّۃٍ میں تو بیگناہ لوگ بھی شامل ہیں، ان کو کیسے تباہ کیا جاتا؟