اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ ۚۖ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ۚ فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ تم سے دریغ رکھتے ہیں چنانچہ جب خوف کا وقت آ جائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ آنکھیں پھیرتے ہوئے ایسے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، پھر جب خوف ٹل جاتا ہے تو وہ مفاد کی حرص میں چرب زبانی کے ساتھ تم پر بڑھ چڑھ کر بولیں گے، یہ لوگ ایمان نہیں لائے اس لیے اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے اور یہ اللہ کے لیے (بہت) آسان ہے۔

19۔ ان لوگوں نے اگر اچھے اعمال انجام دیے ہیں تو بھی ان کے اعمال حبط ہو گئے، کیونکہ ان کے اعمال میں اچھائی ہو تو بھی خود ان لوگوں میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ نہ حسن ایمان، نہ حسن نیت۔

اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ : تمہارا ساتھ دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ نہ جان کی قربانی دیتے ہیں، نہ مال کی۔ البتہ کامیابی کی صورت میں مالی مفادات حاصل کرنے اور غنیمت میں حصہ جتانے کے لیے چرب زبانی کے ساتھ بولیں گے۔ اسلامی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے کہ جن لوگوں نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد میں ایک کافر کو بھی نہیں مارا، بعد میں اسلام کے پھلنے اور پھیلنے کے بعد انہی لوگوں نے سب سے زیادہ مفادات حاصل کیے۔

فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ : منافقین کا کوئی عمل، ابتدا ہی سے عمل تصور نہیں ہوتا کہ بعد میں حبط ہو جائے۔ یہ ان مسلمانوں کا ذکر ہے جن کا عمل جنگ سے فرار نہ ہونے کی صورت میں قبول ہونا تھا۔