آیت 14
 

وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور اگر (دشمن) ان پر شہر کے اطراف سے گھس آتے پھر انہیں اس فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ اس میں پڑ جاتے اور اس میں صرف تھوڑا ہی توقف کرتے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ: اگر احزاب کے لشکر ان پر چڑھ آتے اور دشمن غالب آ جاتے اور انہیں فتنہ یعنی مرتد ہونے اور دوبارہ کفر اختیار کرنے کی دعوت دیتے تو یہ لوگ اس دعوت کو قبول کرنے میں صرف اتنا توقف کرتے جتنا وقت کفر کی دعوت دینے پر لگتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقین کے ساتھ ضعیف الایمان لوگ بھی صرف آسودگی کی حالت میں اسلام کا دم بھرتے تھے۔ آزمائش میں یہ لوگ چند لمحوں میں کفر اختیار کرنے والے ہیں۔

بعض الۡفِتۡنَۃَ سے قتال مراد لیتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کے دفاع میں لڑنے کے لیے تو آمادہ نہیں ہیں لیکن مشرکین و کفار کے ساتھ اسلام کے خلاف لڑنے میں کوئی تامل نہیں کریں گے۔

الۡفِتۡنَۃَ سے دونوں باتیں مراد ہو سکتی ہیں۔ یعنی مرتد ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے آمادہ ہوں گے۔


آیت 14