آیت 12
 

وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

تفسیر آیات

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں منافقین کے ساتھ بیمار دل لوگوں کا بھی ذکر ہے کہ دونوں کا ایک ہی موقف ہے۔ منافقین وہ لوگ ہیں جو ایمان کا اظہار کرتے ہیں مگر دل سے ایمان کا انکار کرتے ہیں۔ بیمار قلب وہ لوگ ہیں جوایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کے دل کے ایمان میں تزلزل ہے۔ ایمان میں ثبات نہ ہونے کی وجہ سے وہ منافقین کے ہم خیال بن جاتے ہیں۔ لہٰذا قرآن کی صراحت کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاصرین تین گروہوں پر مشتمل تھے:

i۔ راسخ الایمان والے، جو اپنے امتحان میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔

ii۔ بیمار دل والے، جن کے ایمان میں رسوخ نہیں۔ آزمائش کے وقت ان کے ایمان میں تزلزل آتا ہے اور منافقوں کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔

iii۔ منافقین، جن کے دلوں میں کفر راسخ ہے اگرچہ زبان سے اسلام کا اظہار کرتے ہیں۔

۲۔ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا: منافقین اور مریض دل دونوں کی ایک ہی سوچ ہو گئی تھی کہ جو فتح و نصرت کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دیا گیا ہے وہ بس ایک دھوکہ ہی تھا۔ نہ یہ وعدہ اللہ کا تھا، نہ کسی رسول کا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں اور جو وعدۂ فتح اپنے کو رسول ظاہر کر کے اللہ کی طرف سے کیا ہے وہ ایک دھوکہ ہے۔ ورنہ وہ اگر اس وعدے کو اللہ کی طرف سے سمجھتے تو اللہ کی طرف دھوکے کی نسبت نہ دیتے۔


آیت 12