آیت 20
 

یَحۡسَبُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ لَمۡ یَذۡہَبُوۡا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِ الۡاَحۡزَابُ یَوَدُّوۡا لَوۡ اَنَّہُمۡ بَادُوۡنَ فِی الۡاَعۡرَابِ یَسۡاَلُوۡنَ عَنۡ اَنۡۢبَآئِکُمۡ ؕ وَ لَوۡ کَانُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِیۡلًا﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ یہ خیال کر رہے ہیں کہ (ابھی) فوجیں گئی نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ کریں تو یہ آرزو کریں گے کہ کاش! صحرا میں دیہاتوں میں جا بسیں اور تمہاری خبریں پوچھتے رہیں، اگر وہ تمہارے درمیان ہوتے تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔

تشریح کلمات

بَادُوۡنَ:

( ب د و ) البادی صحرا نشین۔ سواء العاکف فیہ و الباد ۔

تفسیر آیات

۱۔ منافقین کے لیے یہ خبر غیر متوقع تھی کہ لشکر ہائے کفار یہاں سے چلے گئے۔ لہٰذا ان کو اس پر یقین نہیں آ رہا تھا اور ابھی ان کے دلوں میں خوف و اضطراب موجود ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ یَّاۡتِ الۡاَحۡزَابُ: ان کے خوف و اضطراب کا یہ عالم تھا کہ اگر لشکر ہائے کفار دوبارہ حملہ آور ہوتے تو یہ اس قدر دہشت زدہ ہو جاتے کہ یہ آرزو یا کوشش کرتے کہ صحرا نشینوں میں بیٹھ کر جنگ کے خطرات سے محفوظ ہو جائیں۔

۳۔ یَسۡاَلُوۡنَ عَنۡ اَنۡۢبَآئِکُمۡ: انہیں تمہاری خبروں میں دلچسپی ہوتی کہ احزاب کی جنگ میں مسلمانوں کا کیا حشر ہوا۔

۴۔ وَ لَوۡ کَانُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا قٰتَلُوۡۤا اِلَّا قَلِیۡلًا: اگر وہ لشکر میں شریک ہوتے تو بھی لڑائی میں کم حصہ لیتے۔ لہٰذا اسلامی لشکر کو ان کی عدم شمولیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اہم نکات

۱۔ منافق کو مسلمانوں کی سرنوشت کی خبر میں دلچسپی ہوتی ہے۔


آیت 20