لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿ؕ۲۱﴾

۲۱۔ بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔

21۔ اس جنگ میں کوئی ایسی مشقت نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے میں، محاصرے کے دوران بھوک اور پیاس اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں، جہاد کے تمام مراحل میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک بہترین نمونہ تھے۔

لہٰذا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نمونہ ہیں جہاد کے لیے، نمونہ ہیں مشقت اٹھانے میں، نمونہ ہیں مساوات میں کہ عام رعایا کے برابر مشقت اٹھائی، نمونہ ہیں میدان جنگ میں استقامت کا، نمونہ ہیں دوسروں کے برابر بھوک اور پیاس کی تکلیفیں اٹھانے میں۔

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾

۲۲۔ اور جب مومنوں نے لشکر دیکھے تو کہنے لگے: یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

22۔ راسخ الایمان مومنین کا ذکر ہے، جب ان مومنین نے لشکر احزاب کو دیکھا تو مومنین کو دی گئی فتح و نصرت کی نوید یاد آ گئی اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوا، جبکہ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کی اللہ پر بدگمانی میں اضافہ ہوا۔

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔ مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمے داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔

23۔ عہد شکن لوگوں کے مقابلے میں عہد میں سچوں، بدل جانے والوں کے مقابلے میں نہ بدلنے والوں کا ذکر ہے۔ شواہد التنزیل میں آیا ہے: حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: فینا نزلت یہ آیت ہماری شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عبدود کو قتل کیا، جسے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مومن اور مشرک کا نہیں، ایمان اور شرک کا مقابلہ قرار دیا۔ برز الایمان کلہ الی الشرک کلہ ۔ (شرح نہج البلاغۃ 13: 262)

لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور چاہے تو منافقین کو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول کرے، اللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔

وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿ۚ۲۵﴾

۲۵۔ اللہ نے کفار کو اس حال میں پھیر دیا کہ وہ غصے میں (جل رہے) تھے، وہ کوئی فائدہ بھی حاصل نہ کر سکے، لڑائی میں مومنین کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ بڑا طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔

وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا ﴿ۚ۲۶﴾

۲۶۔ اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان (حملہ آوروں) کا ساتھ دیا اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو تم نے قیدی بنا لیا۔

26۔ غزوئہ بنی قریظہ کی طرف اشارہ ہے کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ تھا۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے جنگ احزاب میں مشرکین کی حمایت اور کمک کی تھی۔جنگ خندق کی فتح کے بعد حکم خدا سے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنی قریظہ کا محاصرہ کیا، پچیس راتوں کے بعد بنی قریظہ کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بہت بڑا اسلحہ ذخیرہ کر رکھا تھا یا اس سے پہلے ان یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور مشرکین کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ بنی قینقاع کے یہودیوں کو عبد اللہ بن ابی (منافق) کے حلیف ہونے کی بنیاد پر اس کے کہنے پر چھوڑ دیا گیا تو یہ یہودی خیبر اور دیگر علاقوں میں جا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے لگے۔ اس لیے ان یہودیوں کو قتل کرنا لازمی ہو گیا تھا۔

وَ اَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَ دِیَارَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ وَ اَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا﴿٪۲۷﴾

۲۷۔ اور اس نے تمہیں ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال اور ان کی ان زمینوں کا جن پر تم نے قدم بھی نہیں رکھا وارث بنایا اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔

27۔ وَ اَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا : یعنی وہ زمین جسے مسلمانوں نے بغیر جنگ کے فتح کیا۔ بعض کے نزدیک یہ خیبر کی سرزمین ہے۔ سیاق آیت کے مطابق یہ بنی قریظہ کی جائداد کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس جائداد کو انصار میں تقسیم کیا، چونکہ یہ جائداد بغیر جنگ کے حاصل ہوئی تھی، جو آنحضرت کی ملکیت تھی۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ اے نبی! اپنی ازواج سے کہدیجئے: اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طریقے سے رخصت کر دوں۔

وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لیے اللہ نے یقینا اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔

28۔29۔ صحیح مسلم میں ہے: ایک روز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہیں۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا: یہ مجھ سے خرچہ مانگ رہی ہیں۔ اس پر دونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹ دیا اور کہا تم رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس نہیں ہے۔ واحدی کی حضرت ابن عباس سے روایت کے مطابق یہ جھگڑا حضرت حفصہ نے آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت عمر کو ثالث بنایا گیا تو حفصہ نے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : لا تقل الا حقا۔ صرف حق بات کہنا۔ جس پر حضرت عمر حفصہ پر برہم ہو گئے تھے۔

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنۡ یَّاۡتِ مِنۡکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفۡ لَہَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَیۡنِ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۳۰﴾

۳۰۔ اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔

30۔ یعنی اس خیال میں نہ رہنا کہ نبی کی زوجہ ہونے کی وجہ سے ہم کسی گناہ میں نہیں پکڑی جائیں گی۔ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ میں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت دینا، غیبت کرنا، بہتان تراشی وغیرہ شامل ہیں۔