قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ کہدیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

11۔ یعنی موت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم زمین میں ناپید ہو جاؤ گے، بلکہ موت یہ ہے کہ فرشتہ موت تمہارے پورے وجود کو وصول کرے گا۔ یعنی جس کو ”میں“، ”تم“ اور ”ہم“ کہا جاتا ہے وہ بغیر کسی کمی بیشی کے اپنے فرشتوں کے ذریعے وصول کریں گے۔ واضح رہے کہ انسان کا مادی جسم تو دنیا میں بھی ہر چھ سال بعد مکمل طور پر بدلتا رہتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کی ”خودی“ نہیں بدلتی۔ انسانی جسم جن خلیوں پر مشتمل ہے، ان خلیوں کی بھی عمریں ہوتی ہیں۔ ہر روز انسان کے کھربوں خلیے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ خون تازہ خلیے تعمیر کرتا ہے۔ اس طرح ہر چھ سال بعد انسان کا پورا مادی وجود بدل جاتا ہے، لیکن اس کی خودی نہیں بدلتی۔

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الۡمُجۡرِمُوۡنَ نَاکِسُوۡا رُءُوۡسِہِمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ رَبَّنَاۤ اَبۡصَرۡنَا وَ سَمِعۡنَا فَارۡجِعۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا اِنَّا مُوۡقِنُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور کاش! آپ وہ وقت دیکھ لیتے جب کافر اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے (اور کہ رہے ہوں گے) ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں (ایک بار دنیا میں) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل بجا لائیں کیونکہ ہمیں یقین آ گیا ہے۔

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَاٰتَیۡنَا کُلَّ نَفۡسٍ ہُدٰىہَا وَ لٰکِنۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ مِنِّیۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے فیصلہ حتمی ہو چکا ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے ضرور بھر دوں گا۔

13۔ یعنی اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی کہ ہر شخص کو اس کی مطلوبہ ہدایت میسر آجائے تو ایسا کر سکتا تھا مگر اس صورت میں وہ ہدایت اختیاری نہیں اجباری ہوتی، جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر اللہ کو اجباری ہدایت قبول ہوتی تو سارا نظام خلقت بے مقصد ہو جاتا اور اس صورت میں سب کو بلا استحقاق جنت میں داخل کرنا ہوتا۔ لیکن جبری ایمان قبول نہ ہونے اور انسان کو خود مختار بنانے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لاتے۔ جو ایمان نہیں لاتے انہیں جہنم میں جانا ہوتا ہے۔

فَذُوۡقُوۡا بِمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ۚ اِنَّا نَسِیۡنٰکُمۡ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡخُلۡدِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ پس اب اس بات کا ذائقہ چکھو کہ تم نے اپنے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا تھا، ہم نے بھی تمہیں فراموش کر دیا ہے اور اب تم اپنے ان اعمال کی پاداش میں ہمیشگی کا عذاب چکھتے رہو جو تم کرتے تھے۔

اِنَّمَا یُؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِہَا خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوۡا بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ ہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿ٛ۱۵﴾ۯ

۱۵۔ ہماری آیات پر صرف وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جب انہیں یہ آیات سمجھا دی جاتی ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی ثناء کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ (رات کو) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

16۔ جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں، اس وقت یہ لوگ عبادت اور دعا میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بندگی کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ دل میں اللہ کا خوف رکھیں، بے پرواہ نہ ہوں، بلکہ خوف و امید کے درمیان رہیں۔ امید کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں، خوف کی وجہ سے محرمات سے پرہیز کرتے ہیں۔ آداب بندگی کا اہم پہلو یہ ہے کہ مومن رات کو عابد، دن کو شیر دل ہوتے ہیں۔ فیاضی کرتے ہیں: وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۔

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پردہ غیب میں موجود ہے۔

17۔ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ ثواب آمادہ کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا اور نہ کسی نے اس کا تصور کیا ہو گا۔ (مستدرک الوسائل6 :62)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: ہر کارِ نیک کا ثواب قرآن میں بیان ہوا ہے سوائے تہجد کے۔ اس کے ثواب کی عظمت کی وجہ سے اس کے ثواب کا ذکر نہیں فرمایا۔

اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ﴿۱۸﴾؃

۱۸۔ بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

18۔ واحدی، الدرالمنثور اور الکشاف میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور ولید بن عقبہ کے فسق کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ الکشاف 3: 525 میں آیا ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے ولید سے فرمایا: تو علی علیہ السلام کو دشنام کیسے دے رہا ہے، جب کہ علی علیہ السلام کو اللہ نے دس آیات میں مومن اور تجھے فاسق کہا ہے۔

اَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ جَنّٰتُ الۡمَاۡوٰی ۫ نُزُلًۢا بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں، یہ ضیافت ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ انجام دیا کرتے تھے۔

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فَسَقُوۡا فَمَاۡوٰىہُمُ النَّارُ ؕ کُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَاۤ اُعِیۡدُوۡا فِیۡہَا وَ قِیۡلَ لَہُمۡ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ لیکن جنہوں نے نافرمانی کی ان کی جائے بازگشت آتش ہے، جب بھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: اس آتش کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔