انسانی جسم کی تحلیل


قُلۡ لَّوۡ اَنۡتُمۡ تَمۡلِکُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَۃِ رَبِّیۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَکۡتُمۡ خَشۡیَۃَ الۡاِنۡفَاقِ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا﴿۱۰۰﴾٪

۱۰۰۔کہدیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پر اختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت (تنگ دل) واقع ہوا ہے۔

100۔ لوگوں پر بخل و کنجوسی کی خصلت جب غالب آ جاتی ہے تو وہ کسی کو کشائش میں نہیں دیکھ سکتے۔ کسی پر اللہ کا فضل و رحمت ہو جائے تو جل مرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اگر اللہ کے ختم نہ ہونے والے خزانوں کا مالک بنایا جائے تو بھی وہ خرچ نہیں کر پائیں گے۔ یہ اشارہ ان مشرکین کی طرف ہے جو صرف از راہ حسد و بخالت رسول کریم ﷺ کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ابوجہل نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ محمد ﷺ لوگوں پر افترا نہیں باندھتا، وہ اللہ پر افترا کیسے باندھ سکتا ہے۔ تاہم ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم محمد ﷺ کی نبوت کو قبول کر کے اس کی برتری قبول کریں۔

قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمۡ تُرۡجَعُوۡنَ﴿٪۱۱﴾

۱۱۔ کہدیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

11۔ یعنی موت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم زمین میں ناپید ہو جاؤ گے، بلکہ موت یہ ہے کہ فرشتہ موت تمہارے پورے وجود کو وصول کرے گا۔ یعنی جس کو ”میں“، ”تم“ اور ”ہم“ کہا جاتا ہے وہ بغیر کسی کمی بیشی کے اپنے فرشتوں کے ذریعے وصول کریں گے۔ واضح رہے کہ انسان کا مادی جسم تو دنیا میں بھی ہر چھ سال بعد مکمل طور پر بدلتا رہتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کی ”خودی“ نہیں بدلتی۔ انسانی جسم جن خلیوں پر مشتمل ہے، ان خلیوں کی بھی عمریں ہوتی ہیں۔ ہر روز انسان کے کھربوں خلیے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ ان کی جگہ خون تازہ خلیے تعمیر کرتا ہے۔ اس طرح ہر چھ سال بعد انسان کا پورا مادی وجود بدل جاتا ہے، لیکن اس کی خودی نہیں بدلتی۔