آیت 16
 

تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ (رات کو) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ: ان کی چوتھی صفت یہ ہے کہ جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں اس وقت یہ لوگ عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔

روایات میں آیا ہے کہ وہ بستروں سے الگ ہوتے ہیں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سوتے نہیں ہیں۔ سونا اس جسم کی ایک ضرورت ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ رات کے ابتدائی حصے میں سوتے ہیں۔ جب رات کے دو حصے گزر جاتے ہیں تو یہ اٹھ جاتے ہیں اور عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ نماز تہجد پڑھنے والوں کی طرف اشارہ ہے۔

یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا: ان کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ خوف و امید کے درمیان ہوتے ہیں۔ وہ امید کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں اور خوف کی وجہ سے محرمات سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان میں بندگی کا سلیقہ موجود ہے اور ان میں یہ شعور ہے کہ اللہ کی بندگی خوف و امید کے درمیان میں ہوتی ہے۔ بے خوفی میں بندگی ہوتی ہے اور نہ ناامیدی میں۔

وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ: ان کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ فیاض ہوتے ہیں۔ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث میں مؤمن کے بیس اوصاف بیان فرماتے ہوئے فرمایا:

رُھْبَان ٌبِاللَّیْلِ اُسُدٌ بِالنَّھَارِ ۔۔۔۔ (الکافی ۲: ۲۳۲)

وہ رات کے عابد اور دن کے شیر ہوتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ رات کو عبادت کرنے والوں اور خوف و امید کے درمیان بندگی کرنے والوں پر ہی آیت الٰہی کا اثر ہوتا ہے: تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ ۔۔۔ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ ۔۔۔۔


آیت 16