آیت 17
 

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پردہ غیب میں موجود ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ جنت کی زندگی اور وہاں کی نعمتوں کا اس دنیا کی زندگی اور اس دنیا کی نعمتوں کے ساتھ موازنہ نہیں ہوسکتا۔ وہاں کی زندگی کا نظام وہ نہیں ہو گا جو یہاں ہے۔ ہم انسان صرف ان چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں جن کاہم نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر ہم نے پانی کو نہ دیکھا ہوتا تو ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ پانی کیا چیز ہے۔ اس لیے جنت کی نعمتوں کے بارے میں روایت میں بھی یہی مطلب بیان ہوا ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اعددت لعبادی الصالحین ما لا عین رات و لا اذن سمعت و لا خطر علی قلب بشر ۔۔۔۔ (بحارالانوار ۸: ۹۲)

میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ ثواب آمادہ کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا، نہ کسی کان نے سنا ہو گا، نہ کسی انسان کے دل نے تصور کیا ہو گا۔

۲۔ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ: جو ان کے لیے پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے پوشیدہ ہے کہ اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔ نہ اس کا وصف و بیان ہو سکتا ہے چونکہ ہمارا دنیوی ذہن ان چیزوں کو اپنے تصور میں نہیں لا سکتا۔

۳۔ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ: آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اس سے مراد انتہائی مسرت ہے۔ کہتے ہیں خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ہر کارخیر کا ثواب قرآن میں بیان ہوا ہے سوائے تہجد کے۔ اس کے ثواب کی عظمت کی وجہ سے اس کے ثواب کا ذکر نہیں فرمایا۔


آیت 17