وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا اور سب امور کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔

22۔ وَجْہَہٗٓ : ای ذاتہ و نفسہ۔ وجہ سے ذات مراد لینا قرآنی اصطلاح ہے۔ جیسا کہ فرمایا: کُلُّ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ۔ ای ذاتہ۔ اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذات اللہ کی ملکیت ہے اور ملکیت مالک کے حوالے ہوتی ہے اور اگر مالک کے علاوہ دوسرے تصرفات میں آئے تو یہ انحراف اور بغاوت ہے۔ چنانچہ مالک کے حوالے کر کے اس کے دائرﮤ ملکیت میں نیک کام کیا جائے تو ہر قسم کے انحراف سے بچنے کے لیے مضبوط رسی اس کے ہاتھ میں آ گئی۔