آیت 22
 

وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا اور سب امور کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ: یعنی ذاتہ و نفسہ۔ وجہ سے ذات مراد لینا قرآنی اصطلاح میں ایک مسلم امر ہے۔ اپنی ذات کو اللہ کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذات اللہ کی ملکیت ہے اور ملکیت مالک کے حوالے ہوتی ہے۔ اگر مالک کے علاوہ کسی دوسرے کے تصرفات میں دی جائے تو یہ انحراف اور بغاوت شمار ہوتی ہے۔

۲۔ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ: مالک کے حوالے ہونے کے بعد ہر عمل مالک کی مرضی کے مطابق ہو تو یہ حوالے کرنا درست ثابت ہو گا اور مالک کے حوالے کرنے کے اثرات صرف عمل کی صورت میں مترتب ہوں گے۔

۳۔ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی: وہ اثرات یہ ہیں کہ اس صورت میں نجات و فلاح کے لیے ایک مضبوط رسی اس کے ہاتھ میں آجائے گی جس کے بعد وہ ہر قسم کے انحراف سے محفوظ رہے گا۔

مضبوط رسی کو تھامنے کی تعبیر سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ نجات کا راستہ طوفانی آندھیوں سے گزرتا ہے۔ مضبوط رسی کے ساتھ متمسک نہ ہوں تو بچھڑ جانے کا خطرہ ہے۔

۴۔ وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ: تمام معاملات کا انجام کار اللہ کی بارگاہ میں جا کر وعدۂ الٰہی کے ساتھ روبرو ہونا ہے اور اپنی ابدی زندگی کی قسمت کا فیصلہ لینا ہے۔

فضیلت: الزھری نے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے چونکہ وہ سب سے پہلے اللہ کے لیے خلوص ایمان کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔۔۔۔ الی آخر الحدیث ۔ ( شواہد التنزیل ذیل آیت)

اہم نکات

۱۔ ایمان عمل کے ساتھ جفت ہو گاتو پھل ملے گا: وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ ۔۔۔۔


آیت 22